کہانی

بادشاہ چلے جاتے ہیں۔ کہانی رہ جاتی ہے۔ سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ اپنے پیچھے وہ کیا چھوڑگئے۔ میاں صاحب کیا چھوڑ جائیں گے؟ میاں محمد منشائوں کی سرپرستی اور تین بلین ڈالر؟ کسی غریب کی دعا ان کے نصیب میں نہیں۔
وہ جہاد فساد میں کیسے بدلا‘ جس کا آغاز بلند بانگ دعووں کے ساتھ تھا۔ آغاز بھٹو کے دور میں ہوا تھا‘ کراچی کا کھویا ہوا امن لوٹا دینے والے جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں۔ افغان بچے کھلونا بموں سے قتل ہو رہے تھے۔ سوویت یونین کی سفاک سرخ سپاہ ان پہ چڑھ دوڑی تھی۔
کراچی شہر تک افغان مہاجر چلے گئے۔ ایک بڑا سا مکان تھا‘ ایک جدید کالونی میں۔ کئی خاندان مل کر گئے‘ کرایہ پر لینے کے لیے۔ مالکن نے انکار کر دیا۔ کچھ دن بعد بڑے صاحبزادے نے دیکھا کہ وہی شاندار گھر ایک خوش حال افغان گھرانے ہی کو دے دیا گیا۔ چھوٹے بھائی سے اس نے پوچھا: امّاں کا فیصلہ یہ تھا کہ افغانیوں کو ہرگز نہ دیا جائے گا۔ اس نے کہا: امیر لوگ ہیں‘ امیر آدمی پہ ترس آ ہی جاتا ہے۔ 
میاں محمد نواز شریف اور رانا ثناء اللہ کو میاں محمد منشا پہ پیار آیا ہے۔ فکرمندی لاحق ہے۔ کاش کہ اس ملک کے محتاج‘ مفلوک الحال‘ درماندہ اور ستائے گئے عام آدمی پر کبھی ترس آیا ہوتا۔ اس کا دکھ درد کبھی محسوس کیا ہوتا۔ پنجابی کے اس شاعر نے یہ کہا تھا:
مکّے گیاں گل مکدی ناہیں بھاویں سو سو جمعے پڑھ آئیے
گنگا گیاں گل مکدی ناہیں بھاویں سو سو غوطے کھائیے
گیاں گیاں گل مکدی ناہیں بھاویں سو سو پند پڑھائیے
بلّھے شاہ گل تاں ای مکدی جدوں ”میں‘‘ نوں مار مکائیے
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا‘ اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں
جا جا مندر مسیتی وڑدے‘ اپنے اندر کدی وڑیا ای نئیں 
سر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی‘ لینا کی سر ٹوپی دھر کے
چلّے کیتے پر رب نہ ملیا کی لینا چلّیاں وچ وڑ کے
ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں 
نفس اپنے آپ نال لڑیا ای نئیں
بلّھے شاہ آسمانی اڈدی پھڑدا ایں
جیڑا گھر وچ بیٹھا کدی اوہنوں پھڑیا ای نئیں
مکہ پہنچ جانے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، خواہ سو سو بار وہاں جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے۔ گنگا میں نہانے سے قصہ تمام نہیں ہوتا، خواہ سینکڑوں بار اس میں اشنان کیا جائے۔ زیارتوں سے بات ختم نہیں ہوتی، خواہ سو بار سبق بھی پڑھا ہو۔ بلھے شاہ مقصد تب حاصل ہوتا ہے، اگر آدمی اپنی انا سے دستبردار ہو جائے۔ بھاگ بھاگ کر مندر اور مسجد میں جاتے ہو‘ اپنے اندر کبھی اترتے ہی نہیں۔ شیطان سے لڑتے ہو، اپنے آپ سے کبھی لڑے ہی نہیں۔ سر پہ ٹوپی رکھی مگر نیت کھوٹی۔ سر پہ ٹوپی اوڑھنے سے کیا ہوتا ہے۔ چلّے کاٹے مگر رب نہ ملا، چلّوں کا کیا فائدہ؟ بلّھے شاہ آسمان پر پرواز کرنے والوں کو جا پکڑا مگر اپنے من کا چور نہ پکڑ سکے۔ جو شیطان تمہارے گھر میں موجود ہے، اسے نہیں پکڑا۔
کہنے والے نے بالکل ٹھیک کہا: میاں صاحب محترم کی تکنیک ہے کہ خود کو وہ مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں، جب خلق خدا کی ہمدردی مطلوب ہو۔ خلیل جبران نے اخبار نویسوں کے بارے میں کہا تھا: وہ انسانی زخموں کے تاجر ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں پر بھی یہ بات صادق آتی ہے… اور اقبالؔ نے یہ کہا تھا؎
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
چھ ہزار برس ہوتے ہیں، حمورابی نام کا ایک حکمران ہو گزرا ہے۔ ابھی چند برس پہلے، اس زمانے کے حجری آثار برآمد ہوئے‘ پتھروں پر لکھے گئے فرمان۔ ان میں سے ایک قرآن مجید کی اس آیت کے مترادف ہے: ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب۔ اے وہ لوگو جو فہم و ادراک رکھتے ہو‘ جان لو کہ زندگی قصاص میں ہے۔
چھ برس ہوتے ہیں میاں صاحب کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک نے اس ناچیز سے کہا تھا: سچی بات یہ ہے کہ ہماری قیادت بدلے ہوئے وقت سے ہم آہنگ نہیں ہو سکی۔ شاید کبھی نہ ہو سکے۔ کچھ لوگ ایک زمانے میں اٹک جاتے ہیں۔ ذہنی طور پر تمام عمر وہیں قیام فرما رہتے ہیں۔ تیس برس ہوتے ہیں جب بے تکلفی کا فائدہ اٹھا کر ایک رہنما سے عرض کیا تھا: ایک طالب علم لیڈر ہمیشہ طالب علم لیڈر ہی رہتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو ماضی میں زندہ ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان ان میں سے ایک ہیں۔ حیرت و حسرت کے ساتھ وہ 1990ء کا زمانہ یاد کرتے ہیں‘ جو انہیں جنرل محمد ضیاء الحق سے وراثت میں ملا تھا۔
آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر عارف نظامی نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم پر تنقید کی جسارت کی۔ حادثہ یہ بھی ہوا کہ ان کے فوراً بعد مجید نظامی مرحوم روسٹرم پرآئے اور یہ کہا: عارف صاحب کی میں تائید کرتا ہوں۔ میاں صاحب بگڑے اور یہ کہا: میں بھی جوان وزیر اعظم ہوں۔ اس زمانے میں ایک بار یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ 25 برس تک وہ ملک پر حکومت کریں گے۔ اب بھی انہیں یاد نہیں‘ تب بھی یاد نہ تھا ؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے 
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
جزیرہ نمائے عرب‘ بلادِ شام‘ دمشق کے علاوہ لبنان‘ اردن اور خلیج کے ممالک۔ مصر‘ ایران‘ بلوچستان اور سندھ‘ مراکش‘ الجزائر اور یورپ میں سپین تک۔ سلیمان بن عبدالملک کی سلطنت تھی۔ سبز رنگ اسے بھاتا بہت تھا۔ ہرے رنگ کا ایک دن خیمہ لگوایا‘ ہم رنگ قالین‘ ہلکے سبز رنگ کا لباس پہنے آئینے کے سامنے کھڑا ہوا اور کہا: بے شک ابوبکرؓ‘ صدیق تھے‘ عمرؓ‘ فاروق تھے‘ بے شک عثمان ؓ‘ غنی تھے‘ میں بھی تو صاحبِ شباب امیرالمومنین ہوں۔ پھر مجمع کے مقابل آیا اور یہ کہا: خدا کی قسم میں قسطنطنیہ کو فتح کروں گا یا جان دے دوں گا۔
پھر ایک دن بستر مرگ پر وہ پڑا تھا‘ زاروقطار روتا ہوا۔ اپنے جانشین‘ اپنے تیماردار عمر بن عبدالعزیز سے اس نے کہا: اس حال میں دنیا سے جا رہا ہوں کہ میرے بچے کمسن ہیں۔ اللہ جانے ان کا کیا ہو گا؟ عمر بن عبدالعزیز کو بعض خلفائے راشدین میں شامل کرتے ہیں۔ دو برس باقی تھے‘ جب انہیں دنیا سے اٹھنا تھا۔ قیصر روم نے تب یہ کہنا تھا: ”بادشاہ نہیں‘ وہ ایک راہب تھا‘ دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا‘‘۔
اپنے پیشرو سلیمان بن عبدالملک سے آپ نے یہ کہا: ”کیا وہ پروردگار تمہاری اولاد کو رزق اور عافیت نہ بخشے گا جس نے تمہیں بادشاہ بنایا‘‘۔
فارسی کے شاعر نے یہ کہا تھا: ؎
کار دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر کہ گیرد مختصر گیرد
اس دنیا کا کام کبھی کوئی مکمل نہ کر سکا۔ جس نے اسے پکڑا چند دن کے لئے پکڑا۔ 
مورخ نے لکھا ہے: چہرے پر جھریاں، ابرو سفید، بستر مرگ پر امیر تیمور نے اپنے سالاروں سے یہ کہا: شہرِ ختا (چین) کو فتح کرنے سے قبل میری موت کا اعلان نہ کرنا۔ اپنے پوتے کو جانشین کیا‘ اپنی تلوار اسے سونپ دینے کی وصیت کی۔ فرزند اس کا دیوانہ سا تھا، جسے ایک بار امیر نے قتل کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ تاج و تخت پوتے کے نصیب میں بھی نہیں تھا۔ سلطنت بکھر گئی اور داستان باقی رہی‘ حتیٰ کہ فرغانہ کی وادی سے ظہیرالدین نمودار ہوا۔
ظہیرالدین بابر‘ اس کی موت کا قصہ عجیب تھا۔ اپنے بیٹے ہمایوں سے بہت محبت اسے تھی۔ بیٹا بیمار ہوا تو معالجوں نے جواب دے دیا۔ ایک درویش نے باپ کو مشورہ دیا کہ شہزادے کی صحت یابی کے لئے صدقہ دے ۔ ”صدقے میں کیا دیا جائے‘‘؟ امراء اور جنرلوں سے شہنشاہ نے پوچھا۔ ”ہیرا‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ بابر کو صدمہ پہنچا۔ ”پتھر‘‘؟ اس نے کہا، ”خدا کی بارگاہ میں ایک پتھر؟‘‘
پھر اس خواب گاہ میں وہ پہنچا، جہاں فرزند کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ مسہری کا اس نے طواف کیا اور کہتا رہا: ”بار الٰہا میں اپنی زندگی نذر کرتا ہوں‘‘۔ ایسا صدقہ کبھی کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔ قبول کر لیا گیا۔ تاریخ کے لئے زندہ رہنے والی ایک اور داستان!
بادشاہ چلے جاتے ہیں۔ کہانی رہ جاتی ہے۔ سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ اپنے پیچھے وہ کیا چھوڑ گئے۔ میاں صاحب کیا چھوڑ جائیں گے؟ میاں محمد منشائوں کی سرپرستی اور تین بلین ڈالر؟ کسی غریب کی دعا ان کے نصیب میں نہیں۔

 

Tags: , , , ,