کوئی مانے یا نہ مانے، یونس خان ایک بڑا کھلاڑی ھے

یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز کے ریکارڈ کے بہت قریب آچکے ہیں۔

وہ پہلے ہی پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریوں کا ریکارڈ اپنے نام کرچکے ہیں لیکن یہ بات حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ مبصرین اور نقاد عظیم پاکستانی بیٹسمینوں کے تذکرے میں یونس خان کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں جو اس طرح کی غیرمعمولی کارکردگی کے حامل کرکٹر کو دی جانی چاہیے۔

یونس خان جیسے بے غرض کرکٹر کو شاید ان مبصرین کی طرف سے کسی سند کی ضرورت بھی نہیں ہے اسی لیے وہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون انھیں بڑا بیٹسمین مانتا ہے اور کون نہیں؟

’میں رونے دھونے والا کرکٹر نہیں ہوں۔ میرے ریکارڈز سب کے سامنے ہیں۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے میں ٹیسٹ کرکٹ میں آٹھ ہزار رنز بناچکا۔ کوئی مانے یا نہ مانے میں نے 30 سنچریاں بنادی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے میں ورلڈ ٹی 20 کی فاتح ٹرافی لارڈز کے میدان میں بلند کرچکا ہوں۔ کوئی مانے یا نہیں میں ڈھائی سو سے زیادہ ون ڈے کھیل چکا ہوں۔اس پرفارمنس کے بعد کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون مجھے بڑا بیٹسمین مانتا ہے کون نہیں۔‘

اس تمام تر حقیقت کے باوجود یونس خان انکساری سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جاوید میانداد سے آگے نکل جانا اب بھی خواب سا لگتا ہے۔

null
یونس خان کے مطابق جاوید میانداد سے آگے نکل جانا اب بھی خواب سا لگتا ہے

’میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں جاوید میانداد سے آگے نکل جاؤں گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انضی بھائی (انضمام الحق) نے جاوید میانداد کے ریکارڈ سے آگے نکلنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے تو میرے لیے یہ بہت بڑی بات ہوگی کہ میں جاوید بھائی کا ریکارڈ توڑوں گا۔ اس وقت میری کیفیت یہ بالکل ایسی ہے کہ جیسے آنکھ کھلی اور مجھے پتہ چلے کہ میں جاوید میانداد سے آگے نکل گیا ہوں۔‘

یونس خان نے اپنے کیریئر میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ سچا اور کھرا ہونے کا انھیں صرف نقصان ہی ہوا ہے۔

’دنیا کو میرے مزاج کا پتہ ہے ۔کچھ لوگوں کا شاید یہ خیال ہو کہ میں اپنے رویے کی وجہ سے 20، 25 ٹیسٹ میچز کم کھیلا ہوں لیکن مسلمان کی حیثیت سے میرا یقین ہے کہ جتنا میری قسمت میں لکھا ہے وہ میں کھیلا ہوں۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے کھرے اور سچے ہونے کا فائدہ ہی ہوا ہے۔میں نے کوئی نقصان نہیں اٹھایا ہوا ہے۔‘

یونس خان نے تین مرتبہ کپتانی چھوڑی ہے لیکن اب بھی کپتانی کی خواہش دل میں موجود ہے۔

’مجھے اب بھی کپتانی کی پیشکش ہوئی تو میں قبول کروں گا۔ میں چاہوں گا کہ کپتان کی حیثیت سے کیریئر ختم کروں اور اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو ایک اعتماد دے کر جاؤں۔‘

null
یونس خان نے تین مرتبہ کپتانی چھوڑی ہے لیکن اب بھی کپتانی کی خواہش دل میں موجود ہے

یونس خان اپنے کیریئر کے اس حصے میں ہیں جہاں لوگ ان کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں بھی باتیں کرنے لگے ہیں لیکن خود یونس خان کی سوچ بہت واضح ہے کہ کسی کو انھیں گھر بھیجنے کی نوبت نہیں آئے گی وہ خود باوقار انداز میں کرکٹ چھوڑ کر جائیں گے۔

’میں خود ہی ریٹائر ہوکر جاؤں گا اور یہ فیصلہ میں اس وقت کروں گا جب میں یہ محسوس کروں گا کہ مجھ میں رنز کی بھوک ختم ہوگئی ہے۔‘

یونس خان کے کیریئر میں ایسے لمحات بھی آئے جب ان کے پیارے ان سے جدا ہوگئے اور ایسے میں انھوں نے خود کو مضبوط کرکے اپنا کیریئر جاری رکھا۔

’میرے لیے بہت کٹھن وقت تھا جب مختصر سے عرصے میں میرے بھائی، والد، بہن اور پھر بھتیجا اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میں اپنی فیملی سے بہت قریب ہوں۔ان حالات میں میرے لیے کرکٹ پر توجہ رکھنا آسان نہ تھا لیکن اس مشکل وقت میں میرے دوستوں نے میری ہمت بڑھائی جن میں راشد لطیف قابل ذکر تھے۔‘