روشن خیال فتویٰ بازیاں

پاکستان کی انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ نے جب مقننہ کے ارکان کے سامنے دہشت گردی پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے پاکستان میں خرابیوں کی بنیاد جنرل ضیاء الحق کو قرار دیا تو مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، بلکہ ہو سکتا ہے اس پاکستان کے سو فیصد لوگوں کو بھی یہ چیز یا گفتگو عجیب نہ لگی ہو۔

اس لیے کہ ضیاء الحق ہمارے روشن خیال اور سیکولر نما دانشوروں، ادیبوں، مؤرخوں اور جدید دور کے میڈیائی تجزیہ نگاروں کے نزدیک تاریخ کے ان معتوب افراد کی فہرست میں شامل ہے جن کی کردار کشی کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو کیسے معتوب اور بدنام کیا جائے۔

یہ لوگ پوری کی پوری تاریخ کو ایک طنزیہ، مزاحیہ یا ناقدانہ جملے میں سموتے ہیں اور پھر بغیر کسی وجہ کے بات ختم کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے ہی جملے کی تصدیق کے لیے نہ تاریخی حقائق ہوتے ہیں اور نہ عقلی دلیل۔ لیکن یہ تمام روشن خیال سکیولر نما دانشور ایسے فتوے مسلسل جاری کرتے چلے آ رہے ہیں اور عوام الناس ان فتوؤں کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ روشن خیال افراد کی ان فتویٰ ساز فیکٹریوں کو شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور میڈیا کے اداروں میں بھی پذیرائی ملتی ہے کہ وہاں اکثریت اسی مزاج کے لوگ بھی ہیں اور ویسے بھی جدید میڈیا کا ایجنڈا اسلام، اس کی تاریخ اور اس کی شخصیات کو متنازعہ بنانا اور معتوب کرنا ہے۔

مثلاً ایک فقرہ بغداد پر ہلاکو کے حملے سے متعلق ہے کہ ’’جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا تو علماء اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام‘‘ یعنی ثابت یہ کرنا ہے کہ روشن خیال عباسی خلیفہ کا کوئی قصور نہیں، افواج کا بھی کوئی دوش نہیں اور نہ ہی وزیر ابن علقمی کی غداری اور ہلاکو کو بلانے کی سازش شکست کا باعث تھی۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی مسلسل یہ کہنے لگے کہ ہم 1971ء کی جنگ جب ہارے تو اس وقت فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ ’’طوطا‘‘ ط  سے لکھا جاتا ہے یا ’’ت‘‘ سے۔ اسی طرح کوئی یہ کہے کہ ہٹلر کی افواج نے فرانس پر اس لیے قبضہ کر لیا تھا کیونکہ پیرس کے پہاڑی علاقے پیگال کی خوبصورت فضاؤں میں ژاں پال سارتر، آندرے میلاراکس اور البرٹ کامس بیٹھے ’’وجودیاتی فلسفے‘‘ پر بحث کرتے ہوئے اس بات پر لڑ رہے تھے کہ کیا ہمارے گھر جو پیرس میں موجود ہیں وہ ابھی تک سلامت ہیں یا نہیں؟ ہو سکتا ہے انھیں آگ لگ چکی ہو، اس لیے اب تو وہ ہمارے نہیں رہے۔‘‘

جرمنی کی شکست کو فوج نہیں بلکہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی اس بحث سے نتھی کیا جا سکتا ہے کہ مقدس راہبائیں واقعی مقدس ہیں یا نہیں۔ روشن خیال اور سیکولر فتویٰ باز فیکٹریوں سے برصغیر سے متعلق بھی فتوے جاری ہوتے ہیں۔ اس فتویٰ بازوں کے نزدیک ایسی وہ تمام شخصیات معتوب اور قابل نفرت ہیں جو اسلام کا ارادی یا غیر ارادی طور پر ہی ذکر کر لیں اور وہ پسندیدہ ہیں جو اس ذکر سے اجتناب کریں۔ مثلاً اکبر محبوب ہے اور اورنگ زیب معتوب، ضیاء الحق معتوب ہے اور پرویز مشرف محبوب‘‘ اب اورنگ زیب کے بارے میں فقرہ ملاحظہ ہو، ’’اس نے کوئی نماز قضا نہیں کی اور کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑا‘‘ بنیادی مقصد نماز کی توہین ہے ورنہ بھائیوں کو زندہ چھوڑنے کی روایت تو ہر مغل بادشاہ نے نبھائی ہے۔

کوئی یہ نہیں کہتا کہ اشوک نے کبھی مندر کی پوجا ترک نہیں کی اور اپنے سو بھائیوں کو زندہ نہیں چھوڑا۔ یا پھر دس لاکھ لوگ کلنگہ جنگ میں مار کر امن کا پجاری بن بیٹھا تھا۔ چونکہ اورنگ زیب عالمگیر کے طرز حکمرانی میں کوئی عیب تاریخ میں نظر نہیں آتا اس لیے ایسے مضحکہ خیز فقرے اور فتوے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس نے تخت نشینی کے فوراً بعد ایسے 80 ٹیکس ختم کیے تھے جو غریبوں سے لیے جاتے تھے۔

وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے ہندو وقف قائم کیا تھا اور بڑے بڑے ہندو مندروں کو جائیدادیں الاٹ کی تھیں۔ مسلمان اتالیق اور ہندو اتالیق کی تنخواہوں میں آدھے کا فرق تھا اس نے دونوں کی تنخواہوں کو برابر کیا تھا۔

وہ برصغیر کا پہلا حکمران تھا جس نے سرکاری خزانے کو امانت خیال کیا تھا اور اپنی روزی کے لیے قرآن لکھنے اور ٹوپیاں سینے کا ذریعہ اختیار کیا تھا۔ اکبر کو بڑا سیکولر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس کے ہاں پنج ہزاری یا دس ہزاری منصب داروں میں سے ہندوؤں کی تعداد 64 تھی جب کہ اورنگ زیب کے ہندو منصب داروں کی تعداد 180 تھی۔ سکھوں سے لڑائی ’’اکبراعظم‘‘ نے شروع کی اور گرو ارجن کو قتل کیا۔ یہ لڑائی اورنگزیب کو ورثے میں ملی۔ اورنگزیب کی اس بغاوت پر فوج کشی کے خلاف بولنے والے اندرا گاندھی کو گولڈن ٹمپل کے حملے میں معاف کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں فتویٰ باز سیکولر فیکٹریوں کے فتوے کمال ہیں۔ ان کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ مولویوں کے خوف سے قرارداد مقاصد آئین کا حصہ بنی اور یہی خرابیوں کی جڑ ہے۔‘‘ کمال ہے جو مسلم لیگ مولویوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے سے نہ ڈری اور جیت کر حکمران بنی وہ حکمران بن کر ڈر گئی۔ ان کو ہضم نہیں ہوتا کہ جمہوری طور پر منتخب لوگ اللہ کی حاکمیت کا اعلان کر دیں۔ جسٹس منیر جیسے جھوٹے شخص کی رپورٹ سے فتویٰ نکالتے ہیں کہ مولوی مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں تھے۔

جھوٹا اس لیے کہا کہ اس نے اپنی رپورٹ میں قائداعظم کے رائٹرز کے انٹرویو میں اپنی طرف سے جھوٹ شامل کیا تھا۔ لیکن یہ سیکولر فتویٰ باز ان بائیس نکات کا ذکر نہیں کرتے جو شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث تمام علماء نے لکھ کر دیے تھے کہ ہم آئین سازی کے لیے ان پر متفق ہیں۔ لیکن سیکولر فتوؤں کے نزدیک سب سے بڑا ظالم ضیاء الحق تھا۔

ان کے نزدیک پاکستان میں ظلم، دہشت، خوف اور ادب دشمنی کی تاریخ ضیاء الحق سے شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی غصے میں منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے کہے گا ضیاء الحق کا دور نکال دیا جائے تو پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، انور مسعود، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، نورالہدی شاہ، عبدالقادر، مستنصر حسین تارڑ، جونیجو، اصغر ندیم سید اور ایسے کئی نام ہیں جو اس دور میں ادب کے آسمان پر چمکے۔ شاعری‘ ادب میں فیض احمد فیض سے لے کر احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی تک کونسا شخص تھا ۔

جس پر پابندی لگی‘ حبیب جالب اپنی تمام جرات کے ساتھ شعر کہتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں شعر کہتا تھا تو اس نے اس پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے حیدر آباد جیل میں پھینک دیا تھا۔ فیض احمد فیض پر بھی بغاوت کا مقدمہ ایک جمہوری دور میں بنا تھا۔ نور جہاں سے لے کر مہدی حسن اور فیض بلوچ سے لے کر الن فقیر تک کون ہے جو زبان بندی کا شکار تھا۔ بلوچستان کی ساری تاریخ میں ضیاء الحق کے دس سال امن کے گہوارے کے طور یاد رکھے جاتے ہیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی فوج کشی وہ بدترین یاد ہے جسے آج بھی بلوچ نہیں بھولے۔ دوسری بلوچ مزاحمت سیکولر فتویٰ بازوں کے ہیرو پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئی اور بلوچستان آج بھی لہو لہان ہے۔

انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے جو فقرہ بولا ہے وہ بھی انھی سیکولر فتویٰ بازوں کا تخلیق کردہ ہے کہ پاکستان کے بحران کی بنیاد ضیاء الحق کی افغان پالیسی‘ افغان جہاد اور پڑوس میں مداخلت ہے۔ تاریخ سے نابلد ان فتویٰ بازوں کو جمعہ خان صوفی کے انکشافات پر مبنی کتاب ’’فریب نا تمام‘‘ ضرور پڑھ لینی چاہیے۔ جمعہ خان ان قوم پرستوں میں شامل تھا جو بھٹو دور میں 1974ء میں بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے اور پھر وہاں بیٹھ کر روس‘ بھارت اور افغانستان کی مدد سے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے تھے۔ اس وقت ضیاء الحق شاید آرمی کے کسی چھوٹے سے رینک پر ہو۔ یہی زمانہ تھا جب بھٹو نے حکمت یار‘ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی کو پاکستان میں لا کر افغان جہاد کی بنیاد رکھی تھی۔

ضیاء الحق کا افغان جہاد تو اسی کی زندگی میں فتح سے ہمکنار ہو گیا تھا۔ اس نے مرنے کے بعد تیرہ سالوں میں کوئی ایک دہشت گردی اور تخریب کاری کا واقعہ پاکستان میں نہیں ملتا۔ یہ لوگ اس دوران پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے کیوں نہ اٹھے۔ تخریب کاری اور دہشت گردی تو مشرف کا تحفہ ہے جسے یہ قوم بھگت رہی ہے۔ جہاں تک ان فتویٰ باز سیکولر حضرات کا یہ دعویٰ کہ ضیاء الحق نے فرقہ واریت کو ہوا دی۔ انھیں تاریخ ایک بار پھر پڑھ لینی چاہیے۔

تمام فرقہ وارانہ تنظیمیں 1986میں بنیں جو ضیاء الحق کا آخر آخر تھا اور فرقہ وارانہ قتل و غارت جمہوری دور میں شروع ہوئی اور آج بھی جاری ہے۔ خود کش حملے جامعہ حفصہ کے ایکشن سے پہلے نظر نہیں آتے جو مشرف کا تحفہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ وہی کہتا ہے جو روشن خیال دانشور ضیاء الحق کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں۔ اس لیے کہ ان سیکولر فتویٰ باز فیکٹریوں کا مال میڈیا پر بکتا ہے اور ان فتووں کی پذیرائی ہوتی ہے۔

Tags: , , , , ,