پاکستن میں سکولوں کی دگرگوں حالت،

دو روز پہلے آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زلزلے کی دسویں برسی پر روایتی رسمی خبری غوغا ہوا۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ مکانات و صحت مراکز تو رہے ایک طرف۔ دس برس گزر جانے کے باوجود زلزلے میں تباہ ہونے والے اسکولوں میں سے پچاس فیصد اسکول اب تک کیوں تعمیر نہیں ہو سکے جنھیں اجل بچوں سمیت نگل گئی۔ پانچ روز پہلے عالمی یومِ اساتذہ خاموشی سے گزر گیا کیونکہ اگلی نسل کے حشر نشر پر غور و فکر سے کہیں اہم لاہور کے حلقہ ایک سو بائیس کا ضمنی انتخاب ہے۔ اسی دوران روزنامہ ڈان میں ایک باشعور صحافی نوین منگی کا ایک مضمون شایع ہوا۔ اس کے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔

’’ گزشتہ دنوں مجھے ضلع لاڑکانہ کے تین سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی کارکردگی دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک بوائز پرائمری اسکول کے استاد نے اسکول کے بینک اکاؤنٹ سے مرمت و سہولتوں کی مد میں رکھے بجٹ میں سے گیارہ ہزار روپے کی رقم نکلوا لی۔ تین ہزار روپے چیک پروسس کرنے والے محکمہ تعلیم کے کلرک کو دیے، تین ہزار مقامی زمیندار کو دیے اور پانچ ہزار خود رکھ لیے۔ یہ اسکول زرعی زمینوں کے درمیان ہے جہاں بجلی نہیں پہنچی۔ ان گیارہ ہزار روپوں میں دو کمروں کے اس اسکول کے لیے شمسی توانائی کا پینل اور دو پیڈسٹل فین خریدے جا سکتے تھے۔

میں نے ایک بوائز سیکنڈری اسکول میں صبح نو بجے دیکھا کہ ستر کے لگ بھگ بچے یا تو برآمدے میں گھوم رہے ہیں یا میدان میں بیٹھے گپ لگا رہے ہیں یا پھر موبائل فون پر گیمز کھیل رہے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں چالیس سے پچاس برس پیٹے کے سات اساتذہ تشریف فرما ہیں۔ ان کے روبرو طشتریوں میں مٹھائی رکھی ہے اور چپراسی بار بار چائے بنا کے لا رہا ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ اسکول کا ٹائم ٹیبل کیا ہے اور کون سا استاد کون سا مضمون پڑھاتا ہے تو ہیڈ ماسٹر نے مجھے اسپاٹ نگاہوں سے یوں دیکھا جیسے میں نے کوئی انتہائی جاہل سوال پوچھ لیا ہو۔ ان ہیڈ ماسٹر صاحب کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ پانچ ہزار روپے ہے۔

چند دن بعد میں نے اسی اسکول میں دیکھا کہ وہی سب اساتذہ آئے، اپنی حاضری لگائی اور بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ کے چلے گئے۔ کیونکہ ٹیچرز یونین کے ایک اجلاس میں پہنچنا بہرحال اہم تھا۔

ایک گرلز پرائمری اسکول میں ایک ادھیڑ عمر ٹیچر اس بات پر طیش میں تھی کہ اس کے نام کے آگے غیر حاضر کیوں لکھا گیا۔ ہیڈ مسٹریس اتفاقیہ چھٹی بھی تو لکھ سکتی تھی۔ اسی اسکول کی تین استانیاں رشوت یا سیاسی سفارش کے ذریعے کسی ایسے اسکول میں تبادلے کے لیے کوشاں ہیں جہاں انھیں ہر صبح حاضر نہ ہونا پڑے۔

اوپر سے نیچے تک کسی بھی طرح کی جواب دہی اور باز پرس سے بے نیاز ان اساتذہ کی تنخواہیں پچیس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہیں۔ جب کہ اسی علاقے میں ایک فلاحی تنظیم کے تحت چلنے والے اسکول میں اساتذہ کی تنخواہ چار ہزار سے سات ہزار روپے کے درمیان ہے۔ مگر وہ بچوں کو باقاعدگی سے پڑھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

تو پھر حیرانی کیوں جب ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق بنیادی تعلیم کے شعبے میں پاکستان ایک سو چوالیس ممالک میں ایک سو چونتیسویں درجے پر اور اعلی تعلیم کے شعبے میں 104 ویں نمبر پر ہے۔پاکستان میں پچھلے پانچ برس کے دوران کم ازکم تینتالیس فیصد اساتذہ نے کوئی پیشہ ورانہ یا ریفریشر کورس نہیں کیا۔سبجیکٹ اسپیشلائزیشن گئی بھاڑ میں، اساتذہ کو ان مضامین پر بھی پوری دسترس نہیں جو یہ بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔

سندھ کے سیکریٹری ایجوکیشن(آصف زرداری کے بہنوئی ) فضل اللہ پیچوہو نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ صوبہ سندھ کے ایک لاکھ پرائمری اساتذہ میں سے ساٹھ فیصد غیر تربیت یافتہ ہیں۔ضلع بینظیر آباد ( نواب شاہ) میں دو سو اساتذہ سے جب ان کے مضمون سے متعلق بنیادی معلومات کا ٹیسٹ لیا گیا تو 80 فیصد اساتذہ ناکام ہو گئے۔اکثریت سیاسی پرچی پر بھرتی ہوتی ہے لہذا وہ کسی بھی طرح کی جوابدہی سے خود کو مبرا سمجھتی ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ ایک بار جو سرکاری نوکری میں آ جائے اسے برطرف کرنا جوئے شیر لانا ہے۔

پاکستان کے چودہ لاکھ اسکولی اساتذہ کی مناسب تربیت اور جوابدہی کیسے ممکن ہو جب سال کے تین سو پینسٹھ دن میں سے تقریباً ایک سو دن گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات اور قومی و ناگہانی چھٹیوں میں صرف ہو جاتے ہیں۔باقی دو سو پینسٹھ دن میں سے باون ہفتہ وار چھٹیوں میں ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔باقی دو سو تیرہ دن میں سے تریپن دن ووٹرز لسٹ، الیکشن ڈیوٹی، وی آئی پی ڈیوٹی، ایمرجنسی کاموں کے لیے طلبی، پولیو، ڈینگی اور دیگر بیماریوں کے خلاف آگہی کی مہم اور سرکاری سروے اور جائزوں کی تیاری کی بیگار میں کھپ جاتے ہیں۔

باقی رہ گئے ایک سو ساٹھ دن۔یعنی اگر ایک استاد سال بھر بلاناغہ پوری ایمانداری سے بچوں کو پڑھائے تب بھی وہ تین سو پینسٹھ میں سے صرف ایک سو ساٹھ دن پڑھا سکتا ہے۔بصورتِ دیگر ہڑتالوں، اتفاقی چھٹیوں، بیماری اور حاضری رجسٹر میں غیر حاضری کو حاضری دکھانے کو بھی جمع کرلیا جائے تو سرکاری اسکولوں میں بچوں کو اپنے اساتذہ سے پوری طرح تعلیم شائد پچاس سے ساٹھ دن میسر ہو۔یہ سب ہو رہا ہے سوائے اساتذہ کی تعلیمی استعداد بڑھانے کے فضول کام کے۔

ویسے تو ہم سب رونا روتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا جتنا بجٹ ہونا چاہیے اس سے کہیں کم ہے لیکن جتنا بجٹ بھی مل رہا ہے اس کا ہم کیا کررہے ہیں؟ تعلیم کے نام پر لاکھوں کا روزگاری ریوڑ پالنے اور آیندہ نسلوں میں جہالت بانٹنے پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔اگر صرف سندھ کی مثال ہی لے لیں توپچھلے پانچ برس کے دوران اس ’’جہالت بانٹ نظام‘‘ کو زندہ رکھنے کا بجٹ انچاس ارب روپے سے بڑھ کر ایک سو چالیس ارب روپے سالانہ کر دیا گیا ہے۔

بجٹ میں تین گنا اضافے کے باوجود چھیالیس ہزار پرائمری و سیکنڈری اسکولوں میں سے ننانوے فیصد کسی بھی قسم کی لائبریری و لیبارٹری، پچھتر فیصد پلے گراؤنڈز، باسٹھ فیصد بجلی، تریپن فیصد پینے کے پانی، چھیالیس فیصد بیت الخلا  اور چوالیس فیصد اسکول چار دیواری سے محروم ہیں۔ اگر پاکستان کو سب سے زیادہ آمدنی فراہم کرنے کے دعویدار صوبے کا یہ حال ہے تو پاکستان کے سب سے غریب صوبے بلوچستان کا ذکر ہی بھول جائیں (ویسے کسی سے بھی پوچھیں تو سندھ پر جان بھی قربان ہے)۔

فی زمانہ ریاست کی تمام توجہ ان مجرموں کو پھانسی دینے پر ہے جنھوں نے کسی ایک یا ایک سو کو قتل کیا ہے۔ مگر تعلیم کے نام پر جہالت کے رسے سے ایک پوری نسل کے گلے میں پھانسی کا پھندہ کس کو نظر آ رہا ہے؟

ارے میں پھر بھول گیا۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ تو یہ ہے کہ لاہور کے حلقہ ایک سو بائیس میں کون جیتے گا اور میں اپنا رونا لے کر بیٹھ گیا۔

اپنی آغوش میں مخلوقِ کفن پوش لیے

یہ زمیں ہے یا خلا میں کوئی تابوت رواں (احمد نوید)۔

Tags: , , , , , ,