‘اوسواڑوں’ کی راہ تکتا گوڑی مندر

ابوبکر شیخ

پانی جیون ہے۔ یہ جہاں جہاں سے گذرتا ہے وہاں جیون کے بیج بوتا جاتا ہے۔ دریائے سندھ جہاں جہاں سے گذرا وہاں ہزاروں بستیاں آباد ہوئیں۔ تاریخ کے اوراق دیکھے جائیں تو ‘ہاکڑہ’ (ہمالیہ سے نکلنے والا ایک قدیم دریا) جسے سرسوتی بھی کہا جاتا ہے، کے کناروں پر ایک شاندار تہذیب کے پھول اُگے۔ ‘ڈھولا ویرا’ سرسوتی کے ڈیلٹا کا آخری عظیم الشان شہر تھا بالکل ایسے جیسے دریائے سندھ کے کنارے ‘موہن جو دڑو’ اپنی زمینوں میں کپاس اُگاتا تھا۔ دنیا میں کپاس کا پہلا پودا اس دریائے سندھ کی تہذیب میں ایک غرور کی طرح جُڑا ہوا ہے۔ یہ ساری خوبصورتیاں اور آسائشیں دوسری قوموں کے لیے ایک دعوت کی پگڈنڈی کو تخلیق کرتی ہیں۔ وادیء سندھ میں بھی کچھ اس طرح ہی ہوا۔

آرین کے یہاں آنے سے یہاں کے فطری لینڈ اسکیپ میں یقیناً ایک بہت بڑی تبدیلی آئی، اور یہ کوئی اتنی قدیم آمد بھی نہیں ہے۔ اندازاً یہ آمد دو ہزار قبل مسیح میں شروع ہوئی اور اس آمد کا سلسلہ پانچ سو برس تک جاری رہا۔ آریوں کا دور جو ‘رگ وید’ سے شروع ہوا اس کا اختتام ‘مہابھارت’ کی تخلیق پر ہوا۔

گوتم بدھ ویدک عقائد و رسوم کے سخت خلاف تھا۔ اس نے جب اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی تو وادی گنگ و جمن کے سماج کا چولا بڑی تیزی سے بدل رہا تھا۔ آریوں اور غیر آریوں کے جمہوری ‘سنگھ’ ٹوٹ رہے تھے۔ ویدک دھرم اور برہمنیت جو گلہ بانوں کے فلسفۂ حیات کی پاسبان اور ترجمان تھے، ان بدلے ہوئے حالات کا ساتھ دینے سے نہ صرف قاصر تھے بلکہ معاشرے کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈال رہے تھے۔

اس معاشرتی اور فکری تضاد کو گوتم بدھ کے علاوہ کئی دوسرے سنتوں اور سادھوؤں نے بھی محسوس کیا، چنانچہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں سماجی اصلاح کے جو نظریے پیش کیے گئے، ان کی تعداد 60 سے بھی اوپر تھی۔

برہمنوں کے خلاف جو تحریکیں جاری ہوئیں، ان میں سب سے زیادہ بلند حیثیت ‘جینی تحریک’ نے اختیار کی۔ ان میں ‘مہاویر’ بھی تھا، جو اہنسا اور جیون تیاگ کی تلقین کرتا۔ ‘اجتیا’ تھا جو کہتا تھا کہ دیوی دیوتاؤں کی پوجا فضول ہے اور ہَون، قربانی اور ویدک رسموں کو ادا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

اگر اس زمانے کے حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ جین مت اور بدھ مت کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ان مذاہب کو قبول کرنے کے بعد ان کے مویشیوں کو قربانی کے جھمیلوں سے نجات مل جاتی تھی۔

اگر آپ اسلام کوٹ سے ننگر پارکر جا رہے ہیں تو ننگر پارکر سے بہت پہلے مرکزی راستے سے مشرق کی طرف ایک پکا لنک روڈ نکلتا ہے۔ آپ جیسے آگے جاتے ہیں تو راستے کے دونوں اطراف اچانک سے بہت سارے رہائشی گھر (گھاس پھوس کے بنے چوئنرے) اگ سے آتے ہیں۔ گھروں کے تحفظ کے لیے خاردار جھاڑیوں کی ایک باڑ دے دی گئی ہے۔ اس باڑ سے گھروں کے آنگن نظر آتے ہیں۔ ابھی سورج ڈھلنے میں بہت سارا وقت پڑا ہے مگر ان آنگنوں پر شام کسی گوری کی طرح چھم سے آگئی ہے۔ کوئی عورت بکری سے دودھ دوہ رہی ہے کہ شام کی چائے بن سکے، کوئی ماں اپنی بیٹی کے سر کے بالوں میں تیل لگا کر اس کے بال گوندھ رہی ہے۔ چھوٹے بچے ہیں جو ہماری گزرتی گاڑی کو بس ایک نظر دیکھتے ہیں اور غیر اہم سمجھ کر اپنی دھینگا مشتی میں لگ جاتے ہیں۔

یہ گھر اچھے خاصے فاصلے تک ساتھ چلتے ہیں پھر جیسے ہی راستہ شمال کی طرف مڑتا ہے تو گھر جیسے راستے سے روٹھ کر منہ موڑ لیتے ہیں۔

پھر تھوڑے فاصلہ پر راستہ کے مغرب میں ایک گاؤں نظر آتا ہے، بڑا خوبصورت اور صاف ستھرا سا۔ ہم آگے بڑھتے ہیں اور سامنے راستے کے مغربی کنارے پر وہ مشہور مندر کھڑا ہے جس کے متعلق نہ جانے کتنی لوک روایات ہیں جو تنازعات سے بھری پڑی ہیں۔ کتنے بھی تنازعات ہوں مگر یہ فن تعمیر کا ایک خوبصورت اور حیرت انگیز نمونہ ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جین دھرم کے 24 دھرم نیتا ہوکر گزرے ہیں، ان 24 میں سے 23 نمبر پر “پارس ناتھ” (877-777 قبلِ مسیح) کا نام آتا ہے۔ اسے ‘پارشو ناتھ’ اور ‘گوڑیچا’ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ مندر سوڈھا سرداروں کی حکومت کے زمانے تقریباً دسویں و گیارویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا۔ یہ مندر جین مت کے دیگر مندروں سے بالکل الگ ہے۔ مرکز میں تو پوجا پاٹھ کا مندر ہے لیکن ان کے تینوں اطراف میں دھیان گیان کی کوٹھیاں ہیں جہاں جین دھرم کے گیانی ان کوٹھیوں میں جین دھرم کے، ‘جیو’ (روح)، ‘اجیو’ (غیر ذی روح)، ‘اسرو’ (روح میں مادہ کی ملاوٹ)، ‘بندھ’ (اس ملاوٹ کے بعد روح مادہ کی قیدی بن جاتی ہے)، ‘سمورا’ (روح میں مادہ کی ملاوٹ کو روکا جا سکتا ہے)، ‘نرجرا’ (روح میں پہلے سے موجود مادہ کو زائل کیا جا سکتا ہے) اور ‘موکش’ (نجات) کی گتھیوں کو سلجھانے میں صبح اور شام کر دیتے۔

گوڑی مندر کا بیرونی حصہ۔

اس مندر میں پارس ناتھ کا ایک سنگِ مرمر کا پُتلا رکھا ہوتا تھا جس کی جین دھرم والے پوجا کیا کرتے تھے اور احتراماً دھن دولت نچھاور کرتے۔ پارس ناتھ کے اس بت کے متعلق تاریخ کے اوراق ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ1367ء میں پارس ناتھ کے تین بت ایک ترک مسلمان کے پاس تھے۔ اس ترک سے ایک بت ‘میگھو’ نامی شخص نے ایک سو روپے میں خرید کر اس گوڑی مندر میں رکھا۔

یہ بت اسی مندر میں پڑا رہتا تھا جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے جین دھرم کے ماننے والے (اوسواڑے) اس ‘گوڑیچو’ کے بت کو دیکھںے آتے۔ 1617 میں ستوجی سوڈھو نامی شخص یہ بت ‘باکھاسر’ (ہندوستانی گجرات) لے گیا۔ اور اس بت کی اہمیت کو دیکھ کر سال میں ایک میلے کا ویراواہ (ایک قدیم بندرگاہ جس کے آثار ‘پاری نگر’ (ننگرپارکر) سندھ پاکستان میں ہیں) میں انعقاد کیا جاتا، جہاں اس بت کی نمائش کی جاتی اور بدلے میں بہت سارا دھن دولت مل جاتا۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا، مگر اس مندر میں یہ ‘گوڑیچو’ کا بت پھر کبھی نہیں لوٹا۔ بس اپنا نام چھوڑ گیا جو اب تک اس مندر کی ان اندھیری اور پراسرار کوٹھیوں میں بستا ہے۔

کرنل ٹروٹ نے اپنے کمشنری کے زمانے میں اس مندر کے ایک حصے کو بارود سے اڑا دیا تھا۔ اسے شک تھا کہ مقامی سوڈھے سردار برٹش راج کے خلاف اس مندر میں بیٹھ کر سازشیں کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1715 میں اس مندر کی مرمت کا کام ہوا تھا مگر اکتوبر 1898 میں آئے ہوئے زلزلہ نے اس آشرم کو بڑا نقصان پہنچایا تھا جس کے اَثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

ننگر پارکر میں جین مت کا قدیم گوڑی مندر۔ننگر پارکر میں جین مت کا قدیم گوڑی مندر۔

ایک زمانے میں یہاں مندر کے اندر داخل ہوتے ہی جنوب کی جانب زمین میں ایک سیڑھی اترتی تھی، جہاں ایک دوسرے کے نیچے چار کوٹھیاں تھیں، جہاں پوجا ہوتی تھی۔ پھر آخری نیچے والے کمرے میں سے ایک کھڑکی تھی اور کھڑکی کی دوسری طرف ایک کوٹھی تھی اور وہاں دھن رکھا جاتا۔

میں جب وہاں پہنچا تو مندر سے پہلے مجھے ایک پکا چھوٹا سا تالاب جیسا نظر آیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ وہ غار تھی جس کے اندر کوٹھیاں تھیں اور وہاں دھن دولت رکھا جاتا تھا۔ میں کیونکہ اس غار کی کھدائی نہیں کرسکتا تھا اس لیے یقین سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ میں آج تک جتنی بھی ایسی قدیم ویران سائیٹس پر گیا ہوں، وہاں قدامت کی کوکھ میں ایک پراسراریت چھپی بیٹھی ہوتی ہے، اور پھر اس پراسراریت میں سے دھن دولت اچانک سے اگ آتا ہے۔ یہ انسان کی قدیم خواہش ہے جو ہر ذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھی ہے، اس لیے کچھ کیا نہیں جا سکتا۔

ایس۔این ریکس تحریر کرتے ہیں: “پاری ننگر کے کھںڈرات میں جین دھرم کے 6 بڑے مندر ہیں۔ ان میں سے اکثر سنگِ مرمر کے بنے ہوئے ہیں۔ اتنے عرصے اور زمانے کی بے رحمی کے بعد بھی ان کے حصے محفوظ ہیں جو ایک شاندار ماضی کی نشانیاں ہیں۔ ان پر جو تحریریں ہیں ان میں سے پتہ لگتا ہے کہ یہ گیارہویں صدی کے بیچ میں بنے ہیں۔ جن کاریگروں نے ان پتھروں کو تراشہ ہے وہ بہت نفیس اور اعلیٰ ہے جس کی مثال پیش کرنا انتہائی مشکل ہے۔”

اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔
اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔
اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔
اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔
اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔
اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔اندرونی حصے پر گوڑیچو کی مورتیاں و تصاویر بنائی گئی ہیں۔

میں جب مندر کے اندر داخل ہوا تو گرم شام باہر رہ گئی۔ ایک ٹھنڈک کا احساس تھا جو ہر طرف تھا۔ جب مرکزی دروازے کے بعد آپ مرکزی گنبد کے نیچے پہنچتے ہیں تو دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے۔ یہ حصہ سنگِ مرمر کا بنا ہوا ہے، اس لیے سفید ہے اور ٹھںڈا ہے۔ سنگ مرمر کے کئی چھوٹے بڑے ستون ہیں جنہوں نے جیسے مرکزی گنبد کو سنبھال رکھا ہے۔ اس گنبد کے تینوں اطراف میں گیان دھیان کی کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں۔ ایک عجیب قسم کی خاموشی اور ویرانی ہے جو آپ کے حواسوں پر چھانے لگتی ہے۔ آپ ماضی کے ان منظروں کو اپنے ذہن میں، مطالعے کی بنیاد پر زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھار آپ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور کچھ لمحوں کے لیے سب کچھ جیسے جی اٹھتا ہے۔

میں جب مندر کے اندھیرے سے باہر نکلا تو کچھ لمحوں کے لیے آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ پھر مجھے آشرم کے صاف ستھرے آنگن میں اس مندر کا چوکیدار بھانومل بھیل ملا جو محکمہء آثارِ قدیمہ کی طرف سے یہاں مقرر ہے۔ یہی سبب ہے کہ مندر صاف ستھری حالت میں ہے۔ مندر کے آنگن میں بھی ایک گنبد ہے اور بڑا ہی دلچسپ گنبد ہے۔ کئی کہانیاں ہیں جن کو اس گنبد میں سلسلے وار پینٹ کیا گیا ہے۔

گنبد کے اندر نقش و نگار کے ذریعے مخلتف روایات کی عکاسی کی گئی ہے۔گنبد کے اندر نقش و نگار کے ذریعے مخلتف روایات کی عکاسی کی گئی ہے۔
مندر کا اندرونی گنبدمندر کا اندرونی گنبد

اس گنبد پر اندازاً ڈھائی سو سے زائد منظر پینٹ کیے گئے ہیں جن میں کچھ تصویریں تو یقیناً ‘پارس ناتھ’ (گوڑیچو) کی ہیں، باقی مناظر اس وقت کے شادی بیاہ و دوسری ریتوں رسموں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس وقت کے جانوروں، سواری کے ذرائع، مختلف سانگوں کے مناظر ہیں جو بڑی مہارت سے پینٹ کیے گئے ہیں۔ یہ یقیناً ایک حیرت انگیز گنبد ہے جسے بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔

مندر کی چار دیواری پر جو منظر کنندہ ہیں، وہ فطرت سے محبت کی غمازی کرتے ہیں۔ ایک منظر میں مور اور مورنی ایک دوسرے کو بڑے پیار سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر دو فاختائیں ہیں جو بھی پریشان نہیں ہیں اور بڑے آرام سے ڈالی پر بیٹھی ہیں۔ ہاتھی ہے جو مسکراتا چلا جا رہا ہے۔ پھر دو پیارے سے الو ہیں جو بڑے پیار سے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ جین اور بدھ دھرم کیونکہ مقامی مٹی سے اگے ہوئے مذہب تھے اس لیے ان میں فطرت سے بہت بڑا لگاؤ نظر آتا ہے۔

میں نے جب ایک تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ریٹائرڈ استاد محترم خضر سموں سے جین دھرم والوں کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بڑا تفصیلی جواب دیا: “میں نے ‘اوسواڑوں’ (جین دھرم کو ماننے والے) کو دیکھا تھا۔ بٹوارے کے بعد بھی ان کے دو سو سے زائد خاندان اس ننگر پارکر والے علاقے میں رہتے تھے۔ اچھے اور ایماندار بیوپاری تھے۔ ننگر پارکر میں ان کے جو سارے مندر تھے وہ آباد تھے۔ وہ رات کا کھانا سورج ڈوبنے سے پہلے پکا لیتے، محض اس لیے کہ رات کو اگر آگ جلے گی تو کیڑے مکوڑے اس روشنی پر آئیں گے اور جل کر مر جائیں گے، اور ان کے لیے یہ مہا پاپ تھا کہ کسی جاندار کو ان کی طرف سے نقصان پہنچے۔ اوسواڑے بڑے اچھے بیوپاری اور اچھے کاشتکار تھے۔ فطرت سے بڑی محبت رکھتے۔ 1971 کی لڑائی کے بعد سارے خاندان یہاں سے چلے گئے اُس طرف۔ اب ان کے مندر ویران پڑے ہیں اور خستہ حالی کا شکار ہیں۔”

دیواروں پر پرندوں اور جانوروں کی تصویریں بنائی گئی ہیں۔دیواروں پر پرندوں اور جانوروں کی تصویریں بنائی گئی ہیں۔

خضر سموں کا گاؤں تعلقہ ننگر پارکر میں ہے اور ‘رن آف کچھ’ کے کنارے آباد ہے۔ اس گاؤں کے کنارے بارشوں کے پانیوں سے ایک وسیع جھیل بن جاتی ہے اور ٹھنڈے علاقوں سے آئے ہوئے مہمان پرندے یہاں آتے ہیں اور بے تحاشا آتے ہیں مگر یہاں شکار نہیں ہوتا۔ یہ میرے لیے ایک اچھی اور حیرت انگیز خبر تھی کہ، جھیل میں بہت سارے پرندے ہونے کے باوجود یہاں شکار نہیں ہوتا۔

“آپ کے گاؤں میں کتنے مور ہیں؟” میں نے خضر سموں سے سوال کیا۔

“آٹھ سو سے تو زائد ہی ہوں گے، اور پانچ سو سے زائد خرگوش ہیں اور پندرہ بیس کے قریب ہرن ہیں۔ اور وہ اس لیے ہیں کہ ہم نہ ان کا شکار کرتے ہیں اور نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔”

تھر کے ریت کے ٹیلوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انسان منظروں کو نہیں بنتا، مناظر انسان کو بنتے ہیں۔ درختوں کے رنگ آپ میں سوچ اور دھیان کے بیج بوتے ہیں۔ موسم آپ میں بھلے اور برے کی تمیز بوتے ہیں۔ آپ جتنا فطرت سے قریب رہیں گے فطرت آپ کے اور قریب آئے گی۔ اور جب انسان اور فطرت کا رشتہ ایک دفعہ جڑ جاتا ہے تو پھر اس رشتہ کے ہرے درخت پر آکاس بیل کبھی نہیں اگتی۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

بشکریہڈان میڈیا گروپ

Tags: , ,