عمران نے صحافی سے معافی مانگ لی

عمران خان نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافی عارف یوسفزئی کے سوال کے ردِ عمل میں اپنے رویے پر معذرت کر لی ہے۔

عمران خان کے معافی مانگنے پر صحافی عارف یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’عمران کی معافی کو قبول کرتے ہیں‘ مگر یہ سب پاکستان بھر کے صحافیوں کی اتحاد سے ممکن ہوا ’جنھوں نے عمران خان کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔‘

یاد رہے کہ عمران خان سے عارف یوسفزئی نے اُن کی مردم شناسی کے حوالے سے سوال کیا تھا جس پر عمران غصے میں آگئے۔

اس پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے ملک بھر میں احتجاج کیا اور کہا کہ ان کی پریس کانفرنس کا اُس وقت تک بائیکاٹ کیا جائے گا جب تک وہ معافی نہیں مانگیں گے۔

اس سارے معاملے پر سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا دونوں پر مختلف طریقے سے تبصرے اور تجزیے کیے جاتے رہے ہیں۔

جہاں صحافتی طبقے کی اکثریت کا خیال تھا کہ عمران خان کو رہنما ہونے کی حیثیت سے اس سوال کا جواب بہتر طریقے سے دینا چاہیے تھا وہیں بہت سے ایسے بھی تھے جنھوں نے صحافی کے سوال پر اعتراض کیا۔

نجی چینل جیو کے ایک پروگرام میں تجزیہ کار حسن نثار نے سوال کرنے والے صحافی کے بارے میں کہا کہ انھیں ’اس طرح کا سوال کرنے پر ایک تھپڑ رسید کیا جانا چاہیے۔‘

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہم انصاری نے ٹویٹ کی کہ ’حسن نثار کے سوال کرنے والے صحافی کے بارے میں ریمارکس کی ہر صحافی کو مذمت کرنی چاہیے۔‘

ڈاکٹر فیصل رانجھا نے ٹویٹ کی کہ ’جب شیخ رشید تحریکِ انصاف کے جلسوں میں مخالفین پر ذاتی حملے کرتے تو کیا وہ ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں ہوتی تھی؟‘

Image copyrightTwitter
Image captionپی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کی معذرت پر ٹویٹ

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحافی کا عمران خان سے سوال درست تھا یا نہیں؟

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام آپس کی بات میں کہا کہ ’عمران خان خود اپنی شادی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ٹویٹس کرتے رہے۔ پھر جس طریقے سے اُن کی شادی پبلک میں ہوئی، تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اُن کی ذاتی بات ہے؟‘

نجم سیٹھی نے کہا کہ ’طلاق کی خبر ان کے پارٹی ترجمان کے ذریعے آئی ہے جو ان کا دستِ راست ہے۔ تو سوال جائز تھا، عمران خان کا غصہ ناجائز تھا۔ اس کا جواب مشکل تھا جسے بہتر طریقے سے دیا جا سکتا تھا۔‘

نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ ’صحافیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اشتعال دلائیں اور اشتعال دلا کے کوئی ایسی بات نکالیں جو اور خبر بنے۔ خبر سے خبر بنے اور وہ خبر بن گئی۔ یہ بری صحافت نہیں ہے۔‘

عارف یوسفزئی نے اس کے بعد لکھا کہ ’مجھے دنیا بھر سے یکجہتی کے پیغامات موصول ہوئے ہیں تمام صحافیوں اور سیاست دانوں کا شکریہ۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’سیاست دان پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں اور عمران خان سے ایسی نوعیت کے سوالات ہوتے رہیں گے۔ عمران خان نے مجھے سخت جواب دے کر میڈیا کو شٹ اپ کال دینا چاہ رہے تھے، تاکہ اُن سے ڈر کے کوئی اس بارے میں سوال نہ کرے مگر بات ایسے ختم نہیں کی جا سکتی۔‘

Tags: , , , , , , ,