وزارت خارجہ اور اکبر بادشاہ کا بیربل!

یہ تو سب جانتے تھے معاشی حالت اچھی نہیں ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا حالت اتنی بگڑ چکی ہے۔
اسحاق خان نے بینظیر کو برطرف کیا تو فرمایا وہ کرپٹ اور سکیورٹی رسک تھیں۔ نواز شریف برطرف ہوئے تو بتایا گیا وہ من مانی کرتے ہیں۔ ”انکل ‘‘(اسحاق خاں) کی بات نہیں سنتے۔ فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی تو فرمایا لُوٹ مار کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو کہا‘ ملک ڈوبنے والا تھا ۔ بینظیر اور نواز شریف برطرفی کے بعد کہتے تھے جب ہر طرف دودھ کی نہریں بہانے کا وقت آیا تو انہیں گھر بھیج دیا گیا ۔ 
تو کیا اب کی دفعہ بھی نواز شریف یہی کہیں گے کہ ان کے دور میں دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیںمگر حاسدوں کو ترقی پسند نہ آئی ۔ باقی چھوڑیں قومی اسمبلی میں بدھ کے روز جو دستاویزات وزارت خارجہ اور وزارت تجارت نے پیش کی ہیں وہ کسی بھی محب وطن کو دہلا دینے کے لیے کافی ہیں ۔ وزارت خارجہ نے انکشاف فرمایا نواز شریف نے وزیراعظم کے طور پر تیس ماہ میں دنیا بھر کے 65 دورے کیے جن پر 63 کروڑ روپے کا خرچہ آیا ۔ چھ سو زائد لوگوں نے ان کے ساتھ ان دوروں میں سفر کیا جن میں اکثریت خاندان کے افراد ہیں ۔ سترہ دورے صرف لندن کے ہیں ۔سترہ کا عدد محمود غزنوی کی یاد دلاتا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں وزیراعظم کا بیرونی دوروں پر جانا ضروری ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان سے کیا حاصل کیاجاتا ہے؟غیر ملکی دوروں کے دو بڑے مقاصد ہوتے ہیں۔ یا آپ سفارت کاری کرتے ہیں یا پھر اپنے ملک کا کاروبار بڑھاتے ہیں۔ تو کیا نواز شریف ان دونوں محاذوں پر کامیاب ہوئے ؟
تو پھر سن لیں زرمبادلہ کے بہت بڑے ذریعے برآمدات میں ایک سال میں دو ارب ڈالرز کی کمی ہوئی ۔ پاکستان نے 2014ء میں دنیا کو پچیس ارب ڈالرز کی اشیاء بیچیں ‘2015 ء میںوہ دو ارب ڈالرز کم ہوکر 23 ارب رہ گئیں ۔ جن ملکوں کے دورے نواز شریف نے کیے ہیں انہوں نے پاکستان سے دو ارب ڈالرز کی کم خریداری کی۔ مزے کی بات ہے جن دو ملکوں نے پاکستان سے چیزیں خریدنا بند کی ہیں وہ دونوں دوست ملک سمجھے جاتے ہیں اور جہاں میاں صاحب کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ چین نے پاکستان سے دھاگا خریدنا بند کر دیا ‘تو متحدہ 
عرب امارت نے چاول خریدنے ۔ یورپ نے پاکستان پر مہربانی کی اور جی پلس کا درجہ دیا تھا۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ پاکستان ان مراعات سے وہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے جو بنگلہ دیش اور سری لنکا اٹھارہے ہیں۔ اگر یورپ کی رعایت نہ ہوتی تو ایکسپورٹ اس وقت چار ارب ڈالرز سے زیادہ کم ہوچکی ہوتی ۔ وزارت تجارت کا فرمانا ہے پاکستان اور اس کے تاجروں نے صرف دنیا کے چند ملکوں کو فوکس کیا ہوا ہے جہاں رولا ڈال کر کچھ رعایتیں ان ملکوں سے لی جاتی ہیں اور سب وہیں بیچا جاتا ہے۔ ان چند ملکوں میں یورپ، امریکہ، مڈل ایسٹ شامل ہیں ۔ باقی دنیا کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں وہاں کیا بک سکتا ہے اور ہم کیا کچھ ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔ ہماری اکاون فیصد ایکسپورٹ معدودے چندملکوں کو ہورہی ہے۔ دنیا کے باقی ایک سو پچھتر ملکوں کا ہمیں علم نہیں ہے۔ وہاں ہم اپنی مارکیٹ کیسے بنا سکتے ہیں۔ وزیرتجارت خرم دستگیر کی پیش کی گئی اس رپورٹ کو پڑھیں تو ہنسی آتی ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے جب وزارت تجارت سے پوچھا جاتا ہے کہ ایکسپورٹ کیوں گھٹ رہی ہیں اور انہیں کیسے بڑھایا جاسکتا ہے تو ایک ہی رپورٹ بار بار اسمبلی میں بھیج دی جاتی ہے۔ چار پانچ وجوہ ہیں جن کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ رپورٹ کے آخر میں لکھ دیا جاتا ہے وزیراعظم کی قیادت میں ایکسپورٹ کو اربوں ڈالرز بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب تو نقطہ اور فل سٹاپ بدلنے کی بھی زحمت نہیں کی جاتی۔ 
دوسری طرف سفارت کاری بارے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کو ابھی تک پتہ نہیں ہے سعودی عرب نے جو چونتیس ملکوں کا الائنس بنایا ہے اس کا کیا مقصد ہے۔ پاکستان انتظار کر رہا ہے ۔کب انہیں بتایا جائے گا کہ اس کا کیا مقصد ہے اور پاکستان نے کیا کرنا ہے۔ وزیرخارجہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ انہیں اس الائنس کے بننے کی خبر سعودی خبر ایجنسی سے ملی۔ پاکستان کو پہلے اعتماد میں لینا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا ۔
سفارتی محاذ پر اس وقت بڑی ناکامی ہوئی جب اقوام متحدہ کے ادارے ہیومین رائٹس کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے پاکستان نہ صرف ہار گیا بلکہ بری طرح ہارا۔ یہ سیٹ پاکستان اس وقت جیت رہا تھا جب ملک پر فوجی حکومت تھی لیکن ایک جمہوری حکومت پر یہ الزام لگا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں ؛چنانچہ دوست ممالک نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا یوں ملیحہ لودھی کو پہلی بڑی سفارتی شکست ہوئی۔ 
بدھ کو ایک اور رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوئی جس میں بتایا گیا ‘پاکستانی سفارت خانوں نے دو برس میں 23 ارب روپے کے اخراجات کیے ہیں ۔ اب بتایا جائے ان سفارت خانوں کا کیا کام ہوتا ہے؟ سفارت کاری کرنا اور ملک کے لیے برآمدات کی منڈیاں ڈھونڈنا ۔کاروبار کا میں نے بتا دیا دو ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کم ہوگئی ہیں۔ سفارت کاری کا پتہ اقوام متحدہ میں چل گیا تھا‘ جب ہم الیکشن ہارگئے۔ چین اور متحدہ عرب امارت جیسے دوست ملکوں نے ہم سے خریداری بند کر دی ہے۔ تو پھر یہ اللے تللے ہمارے کس کام کے؟ ہر سفارت خانے میں کمرشل قونصلر لگائے جاتے ہیں۔ ہر جگہ تجارت کے نام پر اپنے بچوں اور دوستوں کو بیرون ملک تعینات کیا جاتا ہے۔ گیلانی دور سے پہلے اور بعد میں یہی کچھ ہوتا رہا۔ ابھی بھی نواز شریف نے میرٹ پر منتخب کیے گئے نوجوان افسروں کی تعیناتی روک لی کیونکہ وزیراعظم ہائوس کے ڈی ایم جی افسران اپنے علاوہ کسی کو اچھی پوسٹنگ نہیں لینے دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا سفارشی تعیناتیوں نے بیڑا غرق کر دیا۔ اب پاکستان کی برآمدات دھڑام سے نیچے آگری ہیں۔
ان سفارت کاروں کے مزے جاری ہیں جو دو برس میں اس وقت تک23 ارب روپے خرچ کر گئے ہیں ‘کہ جب ہمارا قرضہ بڑھ رہا ہے۔ صرف واشنگٹن کے سفارت خانے میں سات لاکھ ڈالرزکے میڈیکل بل افسروں کو ادا کیے گئے ہیں ۔ دنیا بھر کے معاشی اداروں نے دہائی دینی شروع کر دی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرح بڑھ رہا ہے۔ کہاں سے آئیں گے اربوں ڈالرز اور ادائیگیاں ہوں گی؟ کہاں گئے ہیں وہ جو ہر مہنگے قرضے کے بعد ٹویٹ کر کے اسحاق ڈار کو ملکی زرمبادلہ بڑھانے پر مبارکباد دیتے تھے۔ یہ واحد ملک تھا جہاں مہنگا قرض لے کر ایک دوسرے کو مبارکباد ملتی تھی اور پھر اسحاق ڈار نے چھکا مارا اور پانچ سو ملین ڈالرز کا یورو بانڈ کے نام پر دُنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ ان شرائط پر لیا کہ پانچ سو ملین ڈالرز کے بدلے سود کی مد میں چار سو دس ملین ڈالرز کی ادائیگی کریں گے۔ اب بتائیں اس قرضے کو کیسے ادا کریں؟ سفارت کاروں پر 23 ارب خرچ ہوجاتے ہیں، نواز شریف کے ہر دورہ پر ایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اور وہ ملک سے دو سو دن باہر رہتے ہیں، لندن میں ساٹھ دن وہ بچوں کے ساتھ سرکاری خرچ پر گزارتے ہیں۔ 
ایک اور سن لیں۔ ایک اور رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوئی کہ وزارت خارجہ نے 2005ء میں ایک سکیورٹی بلاک بنانے کا فیصلہ کیا۔ لاگت چوبیس کروڑ روپے رکھی گئی۔ اس پر فارن آفس کے بابوئوں نے مال کمانے کا منصوبہ بنایا ۔ پہلے لاگت کو چپکے سے چوبیس کروڑ سے ساٹھ کروڑ کر دیا گیا اور کام میں تاخیر کرتے رہے تاکہ مزید مال کمائیں ۔ آٹھ برس بعد ایک بلاک مکمل ہوا تو لاگت ایک ارب روپے کر دی گئی۔ یوں چوبیس کروڑ روپے سے شروع ہونے والا سکیورٹی بلاک ایک ارب روپے میں جا کر مکمل ہوا ۔ اب پتہ چلا ہے کہ فارن آفس کے بابوئوں کی ملی بھگت سے کنسلٹنٹ کو کروڑوں روپے کی زیادہ ادائیگیاں کی گئیں۔ اس میں کس کس نے کیا کچھ لیا وہ دوسری کہانی ہے۔ جن افسروں نے اس سکیورٹی بلاک کے لیے فرنیچر خریدا انہوں نے اس میں مال کمایا اور یوں اس ملک کے فرزندوں نے خود ہی بیٹھ کر بندر بانٹ کر کے اپنے اپنے حصے کر لیے۔ اب ایف آئی اے کو کہا گیا کہ وہ تحقیقات کرے۔ ایف آئی اے اپنا حصہ لے گی اور یہ کہانی دب جائے گی۔ 
ابھی وزارت خارجہ کے ایک اور سکینڈل کی تحقیقات ہورہی ہیں کہ نیا سکینڈل آگیا ہے۔ پہلے وزارت خارجہ کے افسران کی بیگمات نے ایک این جی او بنائی اور اسلام آباد میں غیرملکی سفارت خانوں سے چندہ اکٹھا کیا۔ طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو جاپان سے ستر ہزار ڈالرز ملے۔ افسران کی بیگمات کی این جی او نے جو چندہ اکٹھا کیا وہ بھی طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو دے دیا گیا ۔ یوں پاکستان فارن آفس چندہ اکٹھا کر کے کھا پی رہا ہے اور پاکستان ہر سفارتی محاذ پر شکست کھارہے ۔ اس فارن آفس کی این جی او نے سی ڈی اے سے دس ارب روپے کا پلاٹ الاٹ کرایا اور مفت میں ایک پرائیویٹ سکول کے مالک فیصل مشتاق کو دے دیا جس کی سات نسلیں سدھر گئیں ۔ 
مزے ہورہے ہیں۔ بیرون ملک پاکستان سفارت کاردو سالوں میں 23 ارب روپے خرچ کر جاتے ہیں، لاکھوں ڈالرز کا میڈیکل بل کلیم کرتے ہیں، چوبیس کروڑ روپے کا بلاک ایک ارب روپے میں بناتے ہیں، غیرملکی سفارت کاروں سے فارن آفس کی بیگمات چندے اکھٹے کر کے طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو دیتی ہیں، ملک کی ایکسپورٹ دو ارب ڈالرز کم ہوجاتی ہیں، ملک کا وزیراعظم دو سالوں کے اندر اندر 65 دورے کرتا ہے اورملک ڈیفالٹ کنارے پہنچ جاتا ہے لیکن اگر کوئی سوال پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ آپ جمہوریت دشمن ہیں ۔
یہ کام ہے پاکستانی وزارت خارجہ کا ۔ غیرملکی سفارت کاروں سے چندہ اکٹھا کرو۔ سفارت کاری کوئی اور کرے گا ۔اس سے بڑھ کر ملک کا وزیراعظم کہتا ہے یہ نیپرا، نیب، پیپرا کون ہوتے ہیں ؟ ہم جو جی چاہیں کریں۔ یہ وہ اختیار ہیں جو ہندوستان کے اکبر بادشاہ کو بھی حاصل نہیں تھے۔ اکبر بادشاہ کا بھی کوئی سمجھ دار دیوان ، منشی ہوتا تھا جو اخراجات اور آمدن کا حساب رکھ کر امور سلطنت چلاتا تھا ۔ یا پھر اکبر بادشاہ اور بیربل کے بچوں کی لندن اور دبئی میں جائیدادیں نہیں تھیں لہٰذا وہ ہندوستان کو اپنا ملک سمجھ کر حکومت کرتے تھے ۔
اپنا کیا ہے؟ لوٹ مار کے بعد ملک ڈیفالٹ کر گیا تو ہم بوریا بستر لپیٹ کر دوبئی اور لندن جا بسیں گے۔ دوبئی تین گھنٹے تو لندن آٹھ گھنٹے کی فلائٹ …!

 

Tags: , , , , ,