کربلا …اور ہم (پہلاحصہ) ذوالفقار چیمہ

مکّہ اور مدینہ دیکھ چکا تھا، کعبۃُ اﷲ کے طواف کا اعزاز حاصل کر چکا اور خواب گاہِ رسالت مآب ؐ پر حاضری کا شرف حاصل کرچکا تھا۔ وصال کے بعد بھی رسول اﷲﷺ کا ساتھ نہ چھوڑنے والے یارانِ نبیﷺ ابوبکر صدیقؓ اور عمرِفاروقؓ کی ابدی خواب گاہوں کے سامنے کھڑے ہوکر کئی باردعا کر چکا تھا۔۔ اور اب دل نجف اور کربلا پہنچنے کے لیے بیتاب تھا۔ نجف …حضرت علیؓ کرم اﷲوجہ کی ابدی خواب گاہ۔۔ یورپ کی چکاچوند کا مشاہدہ کرنے کے بعداورمغربی تہذیب کے مرکز میں رہتے ہوئے مشرق کے شاعرِ بے مثل نے کہا تھا۔

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف

کربلا… جہاں نواسہء رسول اﷲ حضرتِ حسین ؓ نے اسلام کے ایک بنیادی اصول کی پاسبانی کے لیے اپنی اور پورے خاندان کی قربانی دے دی، اسی لیے تو مشرق کا شاعر پکارتارہا ہے ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری ‘‘…میں وہ سر زمین اپنی آنکھوں سے دیکھنا  چاہتا تھا جہاں دینِ مصطفیٰ کی بقاء کے لیے زمانے کے اعلیٰ ترین افراد نے اپنے لہو سے رسمِ شبّیری ادا کی، میں اس کربلا میں پہنچنے کا متمنّی تھا جس نے دینِ مصطفیٰ کو تقویت دی اور نئی زندگی بخشی۔ امریکا نے صدّام سے ناراض ہوکر عراق پرپابندیاں لگادی تھیں اس لیے کوئی طیارہ عراق نہیں اتر سکتا تھا، مگر مسافر نے ہر قیمت پر کربلا اور نجف پہنچنا تھا ۔

اسلام آباد میں عراقی سفیر سے ملاتو اس نے کہا آپ شام کے دارلحکومت دمشق پہنچیں گے تو ویزہ مل جائے گا، بغداد میں پاکستان کے نائب سفیر مراد علی کلاس فیلو تھے۔ انھوں نے سر توڑکوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی ۔ شام میں دو تین دن رہنے کے بعد مسافراردن پہنچ گیا جہاں سفیرِ پاکستان طارق فاطمی کے دفتر میں چائے پیتے ہوئے اُس نے برملاکہا کہ ’ کربلا دیکھے بغیر واپس نہیںجائیگا‘۔ وہاں سے پھر مراد علی سے رابطہ ہوا، اس نے عراق کے انٹیلی جنس چیف سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں اجازت نامہ مل گیا اور مسافر سڑک کے راستے بغداد کی جانب روانہ ہوگیا۔

اردن کے دارلحکومت عمّان سے صبح پانچ سواریوں والی ٹیکسی پر بیٹھا (میرے علاوہ تین اور مسافر بھی تھے) جس نے اگلی صبح ہمیں بغداد پہنچایا( بغداد اوردمشق زیارات اور تاریخی مقامات سے بھرے ہوئے ہیں، ان کا ذکر پھر کبھی ہوگا)  جہاں مراد علی لینے کے لیے آئے ہوئے تھے، انھوں نے ملتے ہی کہا ’’آپ کامصمم ارادہ دیکھ کر رکاوٹیں ہٹتی چلی گئیں‘‘مراد علی کے گھر پر تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ہم منزل کی جانب چل پڑے۔ مراد تجربہ کارگائیڈ کی طرح مجھے ہر چیز کی تفصیل بتاتا رہا ۔کوفہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع نجف پہنچے تو علیؓ شیرِ خدا کے کارنامے اور اس عظیم ہستی کا فقرذہن میں گھومنے لگے، شاعرِ مشرق کے الفاظ مسلسل زبان پر تھے ۔

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جسکی فقیری  میں بوئے اسد اللّٰھی

روضہء علی مرتضٰےؓ پر کھڑے ہوئے تومحسوس ہوا کہ جسم و روح  بوئے اسد اللّٰھی سے معطّر ہوگئے ہیں۔ر سول اﷲ کے عم زاد اور حضورؐ کی پیاری بیٹی فاطمہؓ کے شریکِ حیات کے منہ سے نکلے الفاظ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہوگئے۔’’میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا،’کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ظلم کی نہیں۔‘ کس کس کا ذکر کریںلکھنے لگیں تو کتابیں بھر جائیں۔نجف سے چالیس منٹ کی مسافت پر کربلا نظر آنے لگا جس کے بارے کہا گیا۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد یعنی معرکہء کربلا نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی۔کربلا… جہاں داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی۔کربلا کے میدان (جو پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے) میں کھڑا ہوا تو سامنے روضہء حسینؓ تھا۔ ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا۔ یہاں پر خاندانِ نبوّت کے خیمے لگے تھے۔ یہاں پیا سے معصوم بچّے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے یہاں پر حضرت امام حسینؓ نے یزیدی فوج کے کمانڈروں کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر اس جگہ، اس جگہ شاہِ دو جہاں ؐکے محبوب ترین نواسے حسینؓ ،ان کے خاندان اور معصوم بچّوں کے مقدّس جسموں میں برچھیاں گھونپ دی گئیں ۔ مسافر کربلا میں روضہء حسینؓ کے سامنے کھڑا تھا، شہداء کے درجات کے لیے ہاتھ بلند تھے اور آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسینؓ  ابتدا ء ہے اسمعٰیل ؑ

حضرت اسمعٰیل ؑ کی قربانی ( یا جذبہء قربانی) سے شروع ہونے والی قربانی کی داستان کو امام الشہداء اور ان کے ساتھیوں نے کربلا میں مکمّل کردیا۔ مسافر ،کربلا میں ،دمشق کے بازارمیں(جہاں سے حضرت زینبؓ  اور قافلہء حسین کی بچنے والی دوسری خواتین کو پا برہنہ گزارا گیا تھا) اور مسجدِ امیّہ میں ایک ہی سوال کا جواب ڈھونڈتا رہا کہ ظالموں کے خلاف بغاوت کیوں نہ ہوگئی۔

جب اس ظلمِ عظیم کی لوگوں کو خبر ہو ئی تو انھوں نے ظالم حکمرانوں کی تکّا بوٹی کیوں نہ کردی ، ان کے تخت کیوں نہ اچھال دیے ۔اُمّت محمدؐ نے اتنی بے حسی کا مظاہرہ کیوں کیا؟بہت عرصے بعدصاحبِ دانش سے ملاقات ہوئی تو جواب ملا: ’ اﷲ کی کتاب اور اﷲ کے آخری نبیؐ سے بڑی سچّائی کوئی نہیں ہوسکتی، کیا تمام انسانوں  نے اس سچّائی کو مان لیا؟ نہیں،ا نسانوں میں دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی رَغبت بہت زیادہ ہے، دنیاوی لالچ کے لیے انسانوں نے پیغمبروں کے خلاف بھی جنگیں کی ہیں۔ حق اور سچائی کے لیے دنیاوی فوائد کی قربانی دینے والے کم ہوتے ہیں مگر وہی اﷲ کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں۔ یہی تو دنیا کے امتحان ہیں جن کا نتیجہ اور فیصلہ محشر (Day of Judgement)کے روز سنایا جائے گا‘۔

محّرم کے آغاز میںضلع بھر کے تمام شیعہ اور سنّی اکابرین ، معززین اور پولیس اور انتظامیہ کے افسران کی موجودگی میں کی جانے والی ایک تقریر کے اقتباسات قارئین کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔

معزز حضرات ! محرّم کا مہینہ آتے ہی زخم ہرے ہوجاتے ہیں، مسلمانو ں کے عظیم ترین رہبر و رہنما  نبی کریمﷺ کے وصال کو ابھی پچاس سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپؐ کے خاندان پر ایسا سانحہ گزر گیا جس نے نہ صرف پورے  خطہّء عرب کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پوری اُمّتِ مسلمہ تڑپ اٹھی ۔وقت کے فاسق اور ظالم حکمران نے انسانیت کے محسنِ اعظم نبی آخرالزمان ، آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ کے محبوب ترین نواسے اور ان کے خاندان کے ستّر سے زیادہ افراد کو خاک وخون میں لوَٹا دیا۔ ایسا ظلمِ عظیم کس ہستی کے خاندان سے ہوا!!…یہ روئے زمین اور پوری انسانیت جِن کے احسانوں تلے قیامت تک دبی رہے گی۔

سر زمینِ کربلا ہمیشہ شرمندہ رہے گی کہ خاندانِ نبوّت کی پاکیزہ ہستیوں کا خون اس پر ٹپکا تھا۔ محسنؐ اِنسانیت کے نواسے اور ان کے بچوں پر جو سانحہ گزر گیا اس پر خود انسانیت شرمندگی سے منہ چھپاتی رہے گی۔ مسلمانوں کے لیے یہ صدمہ اتنا عظیم ہے اور جسدِ اسلام پر لگا ہوا یہ زخم اتنا گہرا ہے کہ سرورِ کائنات کے نام لیوا قیامت تک اپنے اپنے انداز میں اس کا سوگ مناتے رہیں گے۔ کسی صاحبِ دانش نے ٹھیک کہا ھے کہ اس عظیم سانحے پر جتنے آنسو بہائے گئے ہیں اور جس قدر بہائے جائیں گے انھیں اکٹھا کیا جائے تو ان کا ذخیرہ دنیا کے سمندروں کے پانی سے کہیں زیادہ ہوگا۔

سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مسئلہ کیا تھا؟ اِشوکیا تھا جسکے لیے خاندانِ محمدﷺ کو اتنی بڑی قربانی دینی پڑی؟ وقت کے حکمران کا مطالبہ تھا کہ حضرتِ حسینؓ اس کی بیعت کرلیں، یعنی اسے ووٹ دے دیں اور اسے حکمران تسلیم کرلیں یعنی حقِّ حکمرانی کا فیصلہ کرنا تھا۔ قیادت کا معیار طے ہونا تھا اور قیادت کے معیا رنے ہی اسلام کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔

یزید نے بیعت طلب کی یعنی ووٹ مانگا تو نواسہء رسول نے اس کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا ، سر کٹوا لیے گئے مگر نواسہء رسول نے وقت کے حکمران کو ووٹ دینا قبول نہ کیا۔ کیوں؟ کس لیے؟ اس کا جواب خود امام حسینؓ نے دیا ہے اور دنیا کی تمام تاریخوں میں درج ہے۔ جنابِ حسینؓ نے یزیدکو حکمران تسلیم نہ کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ “تم حکمرانی کے اہل نہیں ہو کیونکہ تم شراب پیتے ہو اور بدکارہو ” ۔ سچیّ اور آخری نبیﷺ کے خاندان نے جانیں دے دیں مگر ایک شرابی اور بدکار کی لیڈر شپ اور قیادت قبول کرنے سے انکار کردیا۔

گویا کربلا کے میدان میں نواسہء  رسولﷺ نے قیادت کے پیمانے اور میعار مقررکردیے۔ خاندانِ رسالتمآب نے قیامت تک کے لیے مسلمانوں کی حکمرانی کی شرائط اپنے خون سے لکھ دیں۔ شہدائے کربلا نے اپنے لہوسے یہ فیصلہ لکھ دیا کہ قیادت کے انتخاب کے وقت جانچنے اور پرکھنے والی چیز امیدوار کی دولت یا اثرورسوخ نہیں کردار ہے اور جو کردار کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا وہ قیادت کا اہل نہیں ہے۔ اور کسی صورت میں ووٹ کا حقدار نہیں ہے۔

اب ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر ہم پاکستان میں کسی بھی سطح کے انتخابات میں کسی شرابی، بدکار، کرپٹ یا بدکردار شخص کو ووٹ دیں گے تو میدانِ کربلا میں لہو سے لکھی گئی شرائط کوتوڑدیں گے اور خونِ حسینؓ سے بیوفائی کے مرتکب ہونگے۔ اور ہمارے بارے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہم نام حسینؓکا  لیتے ہیںمگر پیروی یزید کی کرتے ہیں۔

(باقی کل ملاخطہ فرمائیں)

Tags: , , , , , , , ,