افغانوں کا نوحہ وسعت اللہ خان کے قلم سے

اس وقت کابل میں اگر کوئی جگہ ہے جہاں صبح سے شام تک ہجوم دیکھا جاسکتا ہے تو وہ ہے ملک کا واحد پاسپورٹ آفس۔ رات سے لائن میں لگنے والا خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے اگر اگلی سہ پہر تک درخواست جمع کرانے میں کامیاب ہوجائے۔

پچھلے ستمبر تک اس پاسپورٹ آفس میں اوسطاً چھ سو درخواستیں روزانہ جمع کرائی جاتی تھیں اور دو سے تین دن میں پاسپورٹ مل جاتا تھا ۔مگر اس ستمبر میں روزانہ پانچ ہزار افغان درخواست دے رہے ہیں اور حصولِ پاسپورٹ کی مدت بھی 40 روز ہوگئی ہے۔ آج کے حالات دیکھتے ہوئے اکثر افغانوں کو یہ 40 دن بھی 40 برس لگ رہے ہیں۔

پر یہ لوگ پاسپورٹ لے کر کریں گے کیا ؟ دنیا اب انھیں پہلے کی طرح قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب لائن میں کھڑے ہر شخص کو معلوم ہے۔

’ آخر آپ لاٹری کا ٹکٹ بھی تو خریدتے ہیں جبکہ آپ جانتے ہیں کہ انعام نکلنے کا چانس لاکھ میں ایک ہے۔‘

’ہاں جانتے ہیں کہ یورپ تک پہنچنے کا امکان پانچ فیصد ہے مگر یہاں رہے تو زندگی ہی زیرو ہے۔‘

اس وقت یورپ کے دروازے پر دستک دینے والے شامی پناہ گزینوں کے بعد دوسرا نمبر افغانوں کا ہے۔ اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 78 ہزار افغانوں نے یورپ میں پناہ کی درخواست دی جو کہ پچھلے برس کے پہلے چھ ماہ سے تین گنا زائد اور گذشتہ 15 برس کے کسی بھی سال سے زیادہ ہے۔

پاسپورٹ لائن میں کھڑا ہر شخص جانتا ہے کہ پاسپورٹ ملنے کے بعد اسے کسی سفارتخانے کے دربان کی منت سماجت میں وقت ضائع نہیں کرنا بلکہ فوراً کسی ہیومن سمگلنگ سنڈیکیٹ سے رابطہ کرنا ہے جو دو سے تین ہزار ڈالر میں اسے کے اہلِ خانہ کو ایران اور ترکی کے راستے یورپ کی دہلیز تک پہنچا دے ۔آگے قسمت۔ راستے میں گرفتاری، بھک مری، لوٹ مار، محافظوں کے ہاتھوں موت یا سمندر میں ڈوبنے وغیرہ کا سمگلر ذمہ دار نہ ہوگا۔

آج کی افغان نسل کے لیے یہ کوئی غیر معمولی تجربہ نہیں۔ چھ ملین پہلے ہی سے دنیا کے 44 ممالک میں بکھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پاکستان یا ایران میں ہیں۔ جبکہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اتنی ہی تعداد ملک میں واپس بھی آ گئی تھی اور اب اتنی ہی تعداد دوسری یا تیسری ہجرت پر آمادہ ہے۔ گویا ہر تیسرا افغان پچھلے 35 برس کے دوران یکطرفہ یا دو طرفہ ہجرت کا تجربہ حاصل کرچکا ہے (اس میں وہ تعداد شامل نہیں جو اندرونِ ملک دربدر ہوئی ہے )۔

امریکہ نے افغان مہم جوئی اور تعمیرِ نو پر کل ملا کے سات سو ارب ڈالر خرچ کیےلیکن تعمیرِ نو کے نام پر بیشتر رقم بلیک ہول سے بھی گہری جیبوں میں گم ہوگئی۔اس امداد سے افغان معیشت کا جو غبارہ مصنوعی طور پر پھلایا گیا وہ پھر سے سکڑ کر مٹھی میں آ چکا ہے (سالِ گذشتہ افغان معیشت میں صرف ایک اعشاریہ چار فیصد کی بڑھوتری ہوئی )۔

سال بھر پہلے تک بھی عام افغان کو امیدِ موہوم تھی کہ حامد کرزئی سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو انتقالِ اقتدار کے بعد سویلین اور عسکری ادارے کم ازکم اتنے مستحکم ضرور ہوجائیں گے کہ روٹی بچے نہ بچے جان و مال و عزت بچی رہے گی لیکن پاسپورٹ آفس کے اندر اور باہر کا ہجوم بتا رہا ہے کہ امید کی کھڑکی بھی بند ہونے کو ہے۔

چار عشروں کی زخم خوردہ افغان چھٹی حس پھر سے چیخ رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں استاد ایران، استاد پاکستان، حاجی سعودیہ، استاد امریکہ اور استاد روس کے پٹھوں میں کمال کا دنگل چھڑنے والا ہے اور یہ خونی ٹورنامنٹ پہلے کسی بھی ٹورنامنٹ سے زیادہ لمبا چلے گا۔ ماحول بن چکا ہے۔ میدان سجنے کو ہے لہذا جہاں بھی سینگ سما سکیں وہیں سے پہلی فرصت میں پہلی گاڑی پکڑ کے کسی بھی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرو۔

حالانکہ تمام افغان ہمسائیوں کو معلوم ہے کہ اس دفعہ بھی یہ آگ پہلے کی طرح ان کو لپیٹ میں لے گی مگر سب اپنی اپنی واڈکا میں مزید واڈکا پانی سمجھ کے ملا رہے ہیں۔نتیجہ ؟ یہ بس ہوش مند جانتے ہیں اور ہوش مند بھی کتنے ہیں؟

 
تصاویرِ: اے ایف پی
مآخذ تحریر: بی بی سی اردو