نہایت ادب کے ساتھ

”14 اور 15 اگست پاکستان اور بھارت میں آزادی کے ایام کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ دونوں طرف ریاستیں اور کارپوریٹ میڈیا جشن مناتے ہیں اور سرکاری تاریخ دان اپنے آقائوں کے مفادات کے تحت برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کی تشریح کرتے ہیں‘‘۔
کیا واقعاتی طور پر یہ بیان درست ہے؟ بھارت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مشاہدہ کیے بغیر لکھنا قرینِ انصاف نہیں۔ رہا پاکستان میں چودہ اگست کا دن تو برہنہ اور ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر یہ دن عیدین کے بعد سب سے بڑے تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لاکھوں کروڑوں سبز ہلالی پرچم ریاست یا ”کارپوریٹ میڈیا‘‘ تو نہیں خریدتا نہ چھتوں‘ موٹر سائیکلوں‘ سائیکلوں اور گاڑیوں پر لہراتا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا بھی گواہ ہے کہ کس طرح عوام کی بھاری اکثریت اس دن ایک دوسرے کو مبارکباد دیتی ہے۔ نظریاتی اختلاف کا مطلب اگر یہ ہے کہ حقائق کو مسخ کردیا جائے تو افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
رومانی خوابوں میں زندگی گزارنا بری بات نہیں۔ یہ ایک انفرادی حق ہے! ہم میں سے بہت سے لوگ زمینی حقائق پر نظر رکھے بغیر پان اسلام ازم کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ کچھ اس غم میں دبلے ہو رہے ہیں کہ مسلمان ممالک ایک دوسرے کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کی پابندیاں کیوں نہیں ختم کر رہے۔ کچھ یورپی یونین کا ڈھانچہ عالمِ اسلام پر نافذ کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ قابلِ دست اندازئی پولیس نہیں! اسی طرح اگر ہمارے کچھ دوست آج بھی طبقاتی کشمکش کے سحر میں اسیر ہیں تو انہیں اس میں اسیر رہنے کا پورا حق حاصل ہے مگر اس سحر کو دوسروں پر مسلط کرنا اور حقائق کے برعکس باتیں لکھنا‘ ایک دوسرا معاملہ ہے جس کی تحسین نہیں کی جا سکتی!
ہمارے ایک کالم نگار دوست نے تحریکِ پاکستان کو طبقاتی کشمکش کی عینک سے دیکھا ہے۔ مثلاً: ”برصغیر کے بٹوارے کا پیش خیمہ اگست 1945ء سے شروع ہونے والی عوامی تحریک تھی جس نے فروری 1946ء میں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں کی بغاوت کو جنم دیا…‘‘
”کانگرس اور مسلم لیگ کو خوف تھا کہ اس بغاوت کے ذریعے انقلاب اور طبقاتی جدوجہد کے نظریات آزادی کی تحریک میں سرایت کر جائیں گے جسے مذہبی تعصب کے ذریعے تقسیم کر کے یہ عناصر ”قابو‘‘ میں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے‘‘۔
”اس شورش کے براہ راست ردعمل میں برطانوی حکمرانوں کو جون 48ء سے قبل ہندوستان چھوڑ دینے کا اعلان کرنا پڑا۔ برطانوی حکمران تحریک کی نوعیت‘ شدت اور حجم سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ اپنی وقتی فتح کے باوجود بھی پسپائی اختیار کرنے کو ترجیح دی لیکن ان واقعات کے بعد وہ برصغیر کو متحد نہیں چھوڑ کر جا سکتے تھے‘‘۔
”سرکاری تاریخ دان‘ برطانوی سامراج کے گماشتے‘ مقامی حکمران سیاستدانوں کو تحریک آزادی کے قائدین بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو تاریخ سے بدترین مذاق ہے‘‘۔
”کچھ دہائیاں قبل جناح صاحب نے سیاست میں مذہب کی آمیزش پر گاندھی کی سرزنش کی تھی۔ اب وہ ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ تھے جس کے امیدوار الیکشن ہی مذہبی کارڈ پر لڑتے تھے‘‘۔
”جناح صاحب جو بعد میں پاکستان کے ”بابائے قوم‘‘ کہلائے کے سامنے مسلمانوں کے ایک الگ ملک کا خیال 1933ء میں لندن کے ہوٹل کی پرتعیش ضیافت کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ ان کے میزبان رحمت علی تھے… جناح صاحب کا ردعمل خاصا سردمہر اور حقارت آمیز تھا… رحمت علی کو جواب میں انہوں نے کہا تھا ”پاکستان؟ یہ ایک ناممکن خواب ہے‘‘۔
تحریک پاکستان کے ضمن میں یہ بیانات کسی حوالے کے بغیر ہیں۔ ان پر بحث ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محقق ہی کر سکتے ہیں جن کی ایک عمر تحریک پاکستان اور قائداعظم پر تحقیق کرنے میں گزری ہے۔ ہمارے جیسا کم علم طالب علم تو صرف اُس لہجے سے ”محظوظ‘‘ ہو سکتا ہے جس میں قائداعظم کا ذکر کیا گیا ہے اور بابائے قوم کے الفاظ واوین میں لکھے گئے ہیں! دلچسپ مماثلت اس رویے کی اہلِ مدارس کے ساتھ ہے۔ وہ بھی ”جناح صاحب‘‘ جیسے الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں اور بابائے قوم کا لقب تسلیم کرتے ہیں نہ قائداعظم کا!
کالم نگار رقم طراز ہیں: ”تقسیم کے بعد بھی خطے کے عوام نے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی استحصالی ڈھانچے کے خلاف کئی بغاوتیں کی ہیں۔ بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے محنت کش اور نوجوان نسلی تعصبات کو مسترد کر کے طبقاتی یک جہتی کے خلاف جبر و استحصال کے خلاف تاریخ کے میدان عمل میں اترے ہیں۔ مارکسی قیادت کی عدم موجودگی ان تحریکوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ رہی ہے‘‘۔
ان بغاوتوں سے ہمارے جیسے کئی کم علم ناآشنا ہیں! دلچسپ سوال یہ ہے کہ ”مارکسی قیادت‘‘ اگر اس خطے میں ”عدم موجود‘‘ ہے تو دنیا میں کہاں موجود ہے؟ کیا چین اور روس میں مارکسی قیادت ہے؟ گزشتہ چالیس برسوں کے دوران چین عملی طور پر منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) میں ڈھل چکا ہے۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں کام کر رہی ہیں۔ انفرادی ملکیت موجود ہے۔ کارپوریٹ کلچر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ کیا آج کے چین اور روس کو مارکسسٹ یا کمیونسٹ کہا جا سکتا ہے؟
طبقاتی کشمکش کے خوابوں میں رہنے والوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ وسط ایشیا کو زار کے جانے اور مارکسسٹ سوویت یونین کے قیام سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ جبر و استحصال کا یہ عالم تھا کہ وسط ایشیا کو دنیا سے کاٹنے کے لیے لاطینی رسم الخط اس پر مسلط کیا گیا مگر جب اتاترک نے لاطینی رسم الخط ترکی میں رائج کیا تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس طرح تو ترکی سے ربط بحال ہو جائے گا۔ کہیں انور پاشا کا خواب پورا نہ ہو جائے؛ چنانچہ وسط ایشیا پر روسی رسم الخط مسلط کیا گیا۔ لباس‘ زبان سب بزور تبدیل کیا گیا۔ بسماچی تحریک کو عسکری ظلم سے دبایا گیا۔ اناج اور پھلوں کی پیداوار جبراً کم کر کے کپاس کی پیداوار کو غیر قدرتی طور پر بڑھایا گیا تاکہ خام مال روس کے کارخانوں کو زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے۔ سارا پانی کپاس کی پیداوار پر لگ جانے سے دونوں بڑے دریائوں آمو اور سیرِ دریا میں پانی اس قدر کم ہو گیا کہ ارال جھیل خشک ہو گئی۔ اسے اب بحری جہازوں کا قبرستان کہا جاتا ہے اور وسط ایشیا ایک بڑے ماحولیاتی (Ecological) بحران کا شکار ہے۔ روسیوں کو لا کر بسایا گیا اور وسط ایشیائی شہروں کی آبادی کا سارا منظرنامہ (Demographic-Composition) تبدیل ہو کر رہ گیا۔ آج سوویت یونین باقی ہے نہ وارسا پیکٹ۔ روس مغربی نظامِ معیشت کا خریدار‘ شراکت دار اور نمائندہ ہے۔ مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک‘ غول در غول‘ یورپی یونین میں شامل ہو چکے ہیں۔ 2007ء میں تیس (30) ہزار غیر یورپی ڈاکٹروں کو برطانیہ سے صرف اس لیے نکلنا پڑا کہ مشرقی یورپ کے ڈاکٹروں کو ملازمتیں دینا تھیں۔ یورپی یونین کا قانون اس امر کا تقاضا کر رہا تھا! مائو کی سرخ کتاب رہی نہ مارکس اور لینن کا تجویز کردہ نظام! مگر ہمارے دوست طبقاتی کشمکش کے اُسی باغ کی روشوں پر چہل قدمی فرما رہے ہیں جو اب صرف اُن کے ذہنوں ہی میں پھول کھلاتا ہے! جو ”غیر طبقاتی‘‘ نظام کچھ عرصہ دنیا نے دیکھا‘ اس کی حقیقت بھی سب کو معلوم ہے! جارج آرویل کے شہرۂ آفاق علامتی ناول ”اینیمل فارم‘‘ کا یہ فقرہ اسی سیاق و سباق میں تھا: ”سب برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں‘‘!
یہ کالم نگار دو اڑھائی عشروں سے برصغیر کی تاریخ کا بالعموم اور مغلیہ عہد کی تاریخ کا بالخصوص‘ ایک طالب علم کی حیثیت سے مطالعہ کر رہا ہے مگر یہ بات پہلی بار سنی کہ ”انقلابات کسی سرحد اور تقسیم کو نہیں مانتے‘ 1577ء میں کابل سے رنگون تک برصغیر ایک یکجا ریاست تھا‘‘۔
یہ کون سا ”انقلاب‘‘ تھا جس نے 1577ء میں کابل سے رنگون تک برصغیر کو ایک یکجا ریاست بنا دیا؟ اور برصغیر 1577ء میں کس طرح ایک یکجا ریاست تھا؟ یہ زمانہ شہنشاہ اکبر کا تھا جو 1556ء سے 1605ء تک حکمران رہا۔ تمام مورخ اس امر پر متفق ہیں کہ اکبر کی سلطنت مشرق میں دریائے برہم پترا کی وادی تک اور جنوب میں دریائے گودا وری تک تھی۔ برہم پترا‘ برصغیر کے مشرقی اواخر میں ہے مگر برما سے سینکڑوں میل دور۔ رہا دریائے گودا وری‘ جو گنگا کے بعد بھارت کا طویل ترین دریا ہے‘ تو وہ مہاراشٹر سے شروع ہوتا ہے اور موجودہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش ریاستوں سے ہوتا خلیج بنگال میں گم ہو جاتا ہے! کرناٹک‘ تامل ناڈو‘ کیرالہ اور گوا کی موجودہ ریاستوں پر مشتمل علاقہ اکبر کی سلطنت سے باہر تھا۔ اُس وقت جنوب میں قطب شاہی اور عادل شاہی سلطنتیں قائم تھیں۔ عظیم الشان ہندو سلطنت و جیانگر 1336ء سے لے کر 1646ء تک پیش منظر پر چھائی رہی۔ انہی سلطنتوں کی تسخیر اور مرہٹوں کی سرکوبی ہی کے لیے تو اورنگزیب پچیس برس جنوب میں رہا۔ قبر بھی یہیں بنی!
یوں بھی مغل سلطنت‘ بشمول اکبر‘ کون سی ”غیر طبقاتی‘‘ تھی! اکبر نے صرف چتوڑ کو فتح کرنے کے لیے تیس ہزار کسان اور آٹھ ہزار راجپوت مار دیے۔ ایک سو مزدور تو ہر روز اُن مسقف (چھتوں والے) برآمدوں کی تعمیر میں مرتے تھے جو قلعے کی دیواروں تک پہنچنے کے لیے بنائے جا رہے تھے۔ اکبر نے اپنے اکائونٹنٹ جنرل جو آڈیٹر جنرل بھی تھا‘ شاہ منصور کو اس لیے قتل کرا دیا کہ کرپٹ بیوروکریسی اور وزرا اُسے برداشت نہیں کرتے تھے۔ نظام الدین‘ طبقات ناصری میں لکھتا ہے کہ وہ دیانت دار شخص اُس کرپٹ سسٹم میں اُس مکان کی طرح تھا جہاں بے شمار بلیوں کے درمیان ایک کتا پھنسا ہوا ہو! جاگیرداری سسٹم مغلوں کے عہد میں عروج پر تھا۔ مغل سلطنت گراس روٹ سطح تک مؤثر نہیں تھی۔ علاقے کا صرف چودھری قابو کیا جاتا تھا۔ نیچے کے عوام چودھری کے رحم و کرم پر تھے۔ ممتاز مورخ ابراہام ایرالی‘ جو ہندو نہیں ہے‘ لکھتا ہے کہ مغل سلطنت جب شاہ جہان کے عہد میں اپنے عروج پر تھی تو کل قومی پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ صرف ساڑھے چھ سو طاقتور افراد کے تصرف میں چلا جاتا تھا! باقی بارہ کروڑ عوام غربت کی شرم ناک سطح پر قابلِ رحم حالت میں زندہ رہتے تھے۔ لباس میں لنگوٹی تھی اور رہنے کے لیے کچی جھونپڑیاں! صرف چند ہندو خاندان جو مغل سلطنت کے منظورِ نظر تھے‘ عیش و آرام سے رہ رہے تھے!
رہا معاملہ تحریک پاکستان کا اور بقول کالم نگار ”جناح صاحب‘‘ کا‘ تو کم از کم اس فقیر کو اور اس کے بچوں کو پروردگارِ عالم نے جو کچھ عنایت کیا ہے‘ پاکستان کے صدقے عنایت کیا ہے! اور پاکستانیوں کی عظیم‘ بھاری‘ اکثریت اسی پر یقین رکھتی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں جو کچھ ہم پر گزرتی‘ اُس کی ایک جھلک اُن پاکستانیوں سے پوچھ لیجیے جو مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں آج کل بھارتیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں! ہر بھارتی ہندو کی زندگی کا وہاں ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستانیوں کو ڈھنگ کی کوئی ملازمت ملے نہ وہ بزنس میں آگے بڑھیں!