روحانيت : جاوید چوہدری

میں نے پانچ سال کی عمر میں بابے تلاش کرنا شروع کیے اور یہ تلاش آج تک جاری ہے‘ مجھے روحانیت کے اس سفر میں درجنوں لوگ ملے‘ نوے فیصد جعلی نکلے اور دس فیصد جینوئن۔ مجھے 45 سال کے اس تجربے سے جینوئن اور نان جینوئن بابوں کی پہچان ہو گئی‘ جینوئن بابے کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا‘ آپ اس کے پاس جاتے ہیں۔

یہ آپ کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے اور آپ کو مسئلے کا حل بتا کر روانہ کر دیتا ہے جب کہ نان جینوئن بابوں کے پاس سیکڑوں ’’معجزے‘‘ ہوتے ہیں‘ یہ آپ کی جیب سے تالے‘ کبوتر اور تتلیاں نکال دیتے ہیں‘ یہ آپ کو بتا دیتے ہیں آپ نے صبح کیا کھایا تھا اور آپ نے کس جیب میں کتنی رقم رکھی ہے اور آپ کے والد‘ والدہ‘ بیوی اور بچوں کے نام کیا کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔

آپ کویہ ’’معجزات‘‘ حیران کر دیتے ہیں‘ آپ اس حیرت میں درجنوں لوگوں کو اس بابے کی طرف ’’ریفر‘‘ کر دیتے ہیں اور یوں بابے کی دکان دھڑا دھڑ چل پڑتی ہے‘ نان جینوئن بابوں کا ایک مشترکہ معجزہ ان کی درویشی ہوتی ہے‘ یہ لوگ کسی سے کچھ وصول نہیں کرتے‘ یہ پلے سے لوگوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں‘ چائے بھی پلاتے ہیں اور بعض اوقات انھیںگھر جانے کا کرایہ بھی دیتے ہیں۔

آپ نے اکثر سنا ہوگا فلاں پیر صاحب نے آج تک مجھ سے کچھ طلب نہیں کیا‘ وہ کسی سے کچھ نہیں لیتے‘ یہ ’’ کچھ نہ لینا‘‘ بھی ایک مارکیٹنگ ہوتی ہے‘ یہ لوگ انتہائی چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سو ملاقاتیوں میں سے کسی ایک سے وصول کرتے ہیں اور وہ ’’وصول‘‘ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف اس سے اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں بلکہ یہ سال بھر کے لیے زائرین کے کھانے پینے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں لہٰذا پیر صاحب کے ’’سیلف لیس‘‘ ہونے کا تاثر ایک مارکیٹنگ ٹول ہوتا ہے۔

آپ خود سوچئے ہزار لوگ جب پیر صاحب کے ’’بے لوث‘‘ ہونے کی گواہی دیں گے تو کیا بڑی مچھلی خود تیر کر جال تک نہیں پہنچ جائے گی؟ پیر صاحبان اس بڑی مچھلی کے چکر میں ہزار چھوٹی مچھلیوں کو کھلاتے رہتے ہیں‘ وہ بڑی مچھلی جوں ہی پیر صاحب کے پاس آتی ہے‘ یہ اس سے اپنا نقصان بھی پورا کر لیتے ہیں اور ہزار دو ہزار چھوٹی مچھلیوں کے نان نفقے کا انتظام بھی کر لیتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ملک کے زندہ ’’صوفیاء‘‘ کا مطالعہ کر لیں‘ آپ کو ان سب کے قریبی حلقے میں امیر لوگ ملیں گے۔

پیر صاحب کی بیٹھک اور صحن میں غریب لوگ ہوں گے لیکن بیڈ اور حجرے میں امیر اور بااثر لوگ بیٹھے ہوںگے اور یہ وہ بڑی مچھلیاں ہیں جو ’’صوفیاء کرام‘‘ کے روحانی اخراجات اٹھاتی ہیں چنانچہ پھر پیر صاحب کو دس دس روپے جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے اور جو ’’اولیاء کرام‘‘ یہ کرتے ہیں ‘وہ بے وقوف اور چھوٹے فراڈیئے ہوتے ہیں‘ نان جینوئن بابے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے سائنسی ٹرکس استعمال کرتے ہیں‘ یہ مریدوں سے ملاقات سے پہلے انھیں ہمیشہ ’’سٹنگ روم‘‘ میں بٹھاتے ہیں۔

سٹنگ روم میں مائیک اور کیمرے لگے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ملاقات سے پہلے زائرین کی گفتگو سنتے ہیں‘ یہ گفتگو سے مرید کے مسئلے کا اندازہ کرتے ہیں اور پھر اسے اس کا مسئلہ بتا کر حیران کر دیتے ہیں‘ اگر ریکارڈنگ سسٹم ممکن نہ ہو تو یہ لوگ مریدوں میں اپنے جاسوس بٹھا دیتے ہیں‘ یہ جاسوس مریدوں کی سرگوشیاں سن کر پیر صاحب کو ان کا مسئلہ بتاتے ہیں اور یوں مرید پیر صاحب کی روحانیت کے قائل ہو جاتے ہیں۔

آپ کو اگر کوئی نیا ملازم یا دوست کسی پیر کے پاس لے جا رہا ہے تو آپ یہ بات پلے باندھ لیں وہ دوست یا ملازم پیر کا جاسوس ہو گا اور وہ آپ کا مسئلہ اسے ملاقات سے پہلے بتا دے گا‘ یہ لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں چنانچہ یہ مرید کے سوالوں سے بھی ان کے مسئلے کا اندازہ کر لیتے ہیں‘ میں نے تلاش کے اس سفر میں مختلف بابوں کی ’’روحانیت‘‘ ٹیسٹ کرنے کے لیے بے شمار تجربات کیے اور ہر بار نتائج کو انجوائے کیا‘ مثلاً میں جب بھی کسی پیر کے سٹنگ روم میں بیٹھتا ہوں تو اپنے ساتھی کو غلط مسئلہ بتاتا ہوں۔

میں جب اندر جاتا ہوں تو پیر صاحب میرا وہ غلط مسئلہ مجھے بتا دیتے ہیں اور میں دل ہی دل میں ہنسنے لگتا ہوں۔نان جینوئن بابوں کے مقابلے میں جینوئن بابے کسی کو حیران نہیں کرتے‘ یہ کسی کو کچھ نہیں بتاتے‘ یہ صرف سنتے ہیں اور دوسروں کو سننے کے دوران صرف مسکراتے ہیں‘ یہ آپ سے مشورے بھی کرتے ہیں‘ یہ آپ کے فضول لطیفوں پر دل کھول کر ہنستے بھی ہیں اور ان کا دستر خوان بھی زیادہ وسیع نہیں ہوتا۔

یہ روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور اس روکھی سوکھی میں آپ کو بھی شامل کر لیتے ہیں‘ ان کی ایک اور نشانی ان کی وسعت ہوتی ہے‘ ان کے چوبیس گھنٹے اڑتالیس گھنٹوں کے برابر ہوتے ہیں‘ ان کا دن ختم ہی نہیں ہوتا‘ یہ سو روپے خرچ کریں گے اور لاکھ روپے کے برابر اشیاء آ جائیں گی‘ سالن کی ایک پلیٹ دس لوگوں کا پیٹ بھر دے گی اور کپڑوں کے دو جوڑے دو دو سال تک چلتے رہیں گے‘ ان کا رنگ نہیں اڑے گا۔

میں نے جہاں نان جینوئن لوگوں سے بہت کچھ سیکھا وہاں میں نے جینوئن بابوں سے بھی دس کارآمد چیزیں سیکھیں‘ میں آپ کی سہولت کے لیے ان کارآمد چیزوں کو دس روحانی ٹپس کا نام دے دیتا ہوں‘ یہ ٹپس میری آج تک کی ’’روحانی تپسیا‘‘ کا نچوڑ ہیں‘ آپ ان سے اپنی زندگی کو آرام دہ اور فائدہ مند بنا سکتے ہیں‘ مثلاً میری زندگی کے تمام جینوئن بابوں کا کہنا تھا‘ وہ گھر جس کے صحن سے درخت کاٹ دیا جائے وہ گھر کبھی آباد نہیں رہتا۔

آپ جب بھی کسی گھر کو اجڑتا دیکھیں‘ آپ تحقیق کر کے دیکھ لیں اس گھر کی بربادی درخت کاٹنے سے شروع ہوئی ہو گی چنانچہ آپ کے گھر میں اگر کوئی پرانا درخت ہے تو آپ اسے ہرگز‘ ہرگز نہ کاٹیں‘ آپ کا گھر ہمیشہ آباد رہے گا‘ یہ وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے انبیاء اور اولیاء کرام پوری زندگی درخت لگاتے اور درختوں کی حفاظت کرتے رہے‘ دو‘ جس گھر سے پرندوں‘ جانوروں اور چیونٹیوں کو رزق ملتا ر ہے اس گھر سے کبھی رزق ختم نہیں ہوتا۔

آپ آج تجربہ کر لیں‘ آپ پرندوں‘ بلیوں‘ کتوں اور چیونٹیوں کو کھانا‘ دانا اور پانی ڈالنا شروع کر دیں آپ کے گھر کا کچن بند نہیں ہو گا‘ آپ پر رزق کے دروازے کھلے رہیں گے‘ آپ کو انبیاء اور اولیاء کے مزارات پر کبوتر‘ کوے‘ مور‘ بلیاں اور چیونٹیاں کیوں ملتی ہیں؟ یہ دراصل مزارات پر لنگر کی ضمانت ہوتے ہیں‘ تین‘ اللہ تعالیٰ غریبوں میں کپڑے تقسیم کرنے والوں کو کبھی بے عزت نہیں ہونے دیتا۔

آپ اگر چاہتے ہیں آپ کے مخالفین آپ کو بے عزت نہ کر سکیں تو آپ غرباء میں کپڑے تقسیم کرنا شروع کر دیں‘ بالخصوص آپ غریب بچیوں کو لباس اور چادریں لے کر دینا شروع کر دیں‘ آپ مرنے کے بعد تک باعزت رہیں گے‘ آپ کا بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بے عزتی نہیں کر سکے گا‘ مزارات پر چادر چڑھانے کے پیچھے بھی یہ راز پوشیدہ ہے‘ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی قبروں کو زندہ جسم سمجھتا ہے چنانچہ یہ انھیں ننگا نہیں ہونے دیتا‘ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے‘ اللہ تعالیٰ نے آج تک اسے غلاف کے بغیر نہیں رہنے دیا۔

آپ نے اگر اللہ کے کسی پسندیدہ شخص کے مقام کا اندازہ کرنا ہو تو آپ انتقال کے بعد اس کی قبر دیکھیں‘ آپ کو اس کی قبر کبھی ننگی نہیں ملے گی‘ یہ پھولوں‘ پتوں اور گھاس سے ڈھکی ہو گی یا پھر اس پر چادر ہو گی اور اگر کچھ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اسے سائے سے ضرور ڈھانپ رکھا ہو گا‘ اس پر درخت کا سایہ ہو گا یا پھر بادل نے اسے اپنی پناہ میں لے رکھا ہو گا‘ یہ سایہ‘ یہ چادر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شخص کی عزت کی حفاظت ہے چنانچہ آپ لوگوں کی ستر پوشی کا بندوبست کریں۔

اللہ آپ کی برہنگی ڈھانپ دے گا‘ چار‘ آپ اگر اپنی راہ سے بھٹکی ہوئی اولاد کو راہ راست پر لانا چاہتے ہیں تو آپ غریب بچیوں کی شادیاں کرا دیں‘ آپ کی اولاد نیک ہو جائے گی‘ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں‘ آپ غریب بچیوں کی شادی کرائیں‘ آپ انھیں گھروں میں آباد کرائیں‘ آپ اپنی اولاد پر اس کے اثرات دیکھیں گے اور یہ اثرات آپ کو حیران کر دیں گے‘ پانچ‘ آپ اگر اپنی زندگی میں شکر اور اطمینان لانا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کر دیں۔

آپ کا دل اطمینان کی نعمت سے مالا مال ہو جائے گا‘ آپ کو اولیاء کرام کی ذات میں اطمینان نظر آتا ہے‘ یہ اطمینان تواضع کی دین ہے‘ آپ بھی متواضع ہو جائیں ‘آپ کی زندگی سے لالچ کم ہو جائے گا‘ آپ مطمئن ہو جائیں گے‘ چھ‘ آپ اگر صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو آپ غرباء کا علاج کرانا شروع کر دیں‘ آپ کی صحت امپروو ہوجائے گی‘ آپ اس کے بعد جو بھی دواء کھائیں گے وہ دوسرے مریضوں کے مقابلے میں آپ پر زیادہ اثر کرے گی۔

آپ جو بھی خوراک کھائیں گے وہ آپ پر زیادہ اثر کرے گی‘ سات‘ آپ اگر دنیاوی مشکلات کا شکار ہیںتو آپ کوئی گلی‘ کوئی سڑک بنوا دیں‘ اللہ تعالیٰ آپ کی ہر مشکل کا راستہ نکال دے گا‘ آپ کا ہر بند دروازہ کھل جائے گا‘ آٹھ‘ آپ اگر ڈپریشن کا شکار ہیں تو آپ دوسروں کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کر دیں‘ کنواں کھدوا دیں‘ غریب کے گھر موٹر لگوا دیں یا پھر گھر کے سامنے ٹھنڈے پانی کا کولر رکھ دیں‘ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا‘ کیوں؟

کیونکہ ڈپریشن آگ ہوتا ہے اور پانی ہر آگ کو بجھا دیتا ہے‘ نو‘ کتابیں بہتر دوست ہوتی ہیں‘ آپ اچھے دوست چاہتے ہیں تو آپ لوگوں میں کتابیں تقسیم کرنا شروع کر دیں‘ آپ لائبریری بنا دیں‘ آپ کبھی دوستوں کی کمی کا شکار نہیں ہوں گے‘ آپ کو دنیا کے ہر کونے میں دوست ملیں گے اور آخری ٹپ‘ آپ اگر طاقتور ہونا چاہتے ہیں تو آپ سادگی اختیار کر لیں‘ دنیا کا کوئی فرعون آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

اللہ تعالیٰ نے سادگی میں ایٹمی طاقت رکھی ہے‘ شاید اسی لیے تمام انبیاء اور تمام جینوئن اولیاء سادہ تھے چنانچہ فرعون ہو یا نمرود یہ ان کی طاقت کے سامنے ٹھہر نہیں سکے‘ آپ بھی آزما لیں‘ آپ کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

Tags: , , ,