مھاجن

نواّب صاحب تخت پر اور دوسرے محلّے میں مہاجن اپنی چوکی پر۔ دونوں کی اپنی اپنی سلطنت! ایک عیش و آرام پر دولت خرچ کرتا ہے اور اس کے لیے مہاجن سے قرض لیتا ہے۔ دوسرا قرض دیتا ہے۔ رجسٹر پر اندراجات اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ سُود در سُود اپنے حساب سے لگاتا ہے۔ نواب صاحب کی بیگمات کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اسی حساب سے مہاجن کا رجسٹر نواب صاحب کی زمینوں اور محلات کو نگلتا جاتا ہے!
یہ وہ عام منظر ہے جو آپ نے کئی انڈین اور پاکستانی فلموں میں دیکھا ہے۔ یہی کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمارے بادشاہوں اور نوابوں کے ساتھ حقیقی زندگی میں کیا۔ نواب واجد علی شاہ کی سلطنت کا اصل انتظام انگریز ریزیڈنٹ کے ہاتھ میں تھا۔ ریزیڈنٹ کے دفتر اور ملازموں کی تنخواہ نواب صاحب ادا کرتے تھے۔ نواب صاحب کی دلچسپی بیگمات میں تھی اور کبوتروں میں اور زنانہ ملبوسات میں اور ڈرامے اور تھیٹر میں‘ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے اودھ پر قبضہ ہی کر لیا۔ واجد علی شاہ کو کلکتہ کے ایک محل میں نظربند کر دیا گیا۔ وہاں بھی حضرت کے لچھن وہی رہے۔ چڑیا گھر اور درجنوں بیگمات۔ اُس زمانے میں (یعنی ایک سو ساٹھ سال پہلے) اُن کے چڑیا گھر کا ماہانہ خرچ دس ہزار روپے تھا!
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اب ہم عقل مند ہو گئے ہیں اور کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دام میں نہیں آ سکتے؟
نہیں! ہم اب بھی ویسے ہی ہیں جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے مبارک زمانے میں تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ واجد علی شاہ کے تخت پر موجودہ حکمران براجمان ہیں اور ایسٹ انڈیا کی مسند پر آئی ایم ایف بیٹھا ہے!
شروع شروع میں اس قدر بھرم تو تھا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ورلڈ بینک کے صدر کے لیے وقت نکالا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان آئی ایم ایف کے اُس اہلکار سے بھی مل رہے ہیں (یا ملنا پڑ رہا ہے) جو صرف مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کا انچارج ہے۔ جنرل ضیاء الحق پابندی سے باٹا کے مالک یا ایم ڈی کو شرف ملاقات بخشتے تھے۔ غالباً اس لیے کہ ان کے بھائی اس کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم آئی ایم ایف کے ایک درمیانی سطح کے اہلکار سے اس لیے مل رہے ہیں کہ پورا ملک آئی ایم ایف کی اردل میں ہے!
اس ملاقات کے ضمن میں وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اشتراک کار سے پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہو چکا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار راغب ہوئے ہیں! کاش قوم کو اعداد و شمار بھی فراہم ہوتے‘ یہ بھی بتایا جاتا کہ اسی عرصہ میں ملک نے قرضہ کتنا لیا ہے؟ فی کس قرض کی رقم کتنی ہے؟ کون سے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟ (اقتصادی راہداری تو چین کے عالمی تجارتی منصوبے کا حصہ ہے) پاکستانی سرمایہ کاروں نے ملک سے بھاگنے میں عافیت جان کر ویت نام ‘ملائشیا‘ بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں کتنی سرمایہ کاری کی ہے؟ اب تو پاکستانی میڈیا میں یو اے ای کی پراپرٹی کے اشتہار یوں چھپتے ہیں جیسے خریداروں کی اکثریت پاکستان ہی میں ہو! ہم جس طرح یہ توقع رکھتے ہیں کہ چین اور امریکہ صرف ہمارے فائدے کے لیے پالیسیاں بنائیں‘ اسی طرح سنجیدگی سے 
یہ بھی فرض کئے ہوئے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمارے ساتھ مخلص ہیں اور صرف ہماری ترقی کے لیے کوشاں ہیں! یہ نہیں سوچتے کہ آخر آئی ایم ایف ہمارے لیے کیوں مخلص ہو؟ وہ کیوں چاہے گا کہ ہم ترقی کر کے آزاد ہو جائیں؟ اُس کے سامنے دست بستہ نہ کھڑے ہوں؟ جب ہمارے دوست ممالک بھی اولین ترجیح اپنے قومی مفادات کو دیتے ہیں تو آئی ایم ایف اولین ترجیح ہمارے مفادات کو کیوں دے؟ 90ء کے عشرے میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر پاکستان نے کیپٹل اکائونٹ کھولا۔ اس کے نتیجہ میں سرمایہ خلیج کے ملکوں میں چلا گیا اور ابھی تک یہ انخلا جاری ہے‘ یہ جو اس وقت ہم آسانی سے سانس لے رہے ہیں تو اس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی ہے آئی ایم ایف کا کوئی کمال ہے نہ کرم فرمائی! ترقی کا پروگرام آئی ایم ایف کیوں دے؟ کیا ہمارے اپنے اقتصادی ماہرین آئی ایم ایف کو ملوث کئے بغیر کوئی پروگرام نہیں بنا سکتے؟ آئی ایم ایف ہم جیسے ملکوں کو کنٹرول کرنے کے لیے SAP کا ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اس کا مطلب آئی ایم ایف کے بقول بہت معصوم ہے یعنی STRUCTURAL ADJUSTMENT POLICIES مگر اس کا حقیقی اور عملی مفہوم یہ ہے کہ تعلیم‘ صحت‘ زراعت اور صنعت کے میدانوں میں ہم پالیسیاں اجازت لے کر بنائیں۔ قرضے لیں‘ پھر وہ قرضے واپس لینے کے لیے مزید قرضے لیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک روپیہ قرض جو ہم لیتے ہیں اس میں سے صرف 19 پیسے ہماری جیب میں ڈالے جاتے ہیں۔ بقیہ 81 شیطانی چرخے میں گھوم کر آئی ایم ایف کی زنبیل میں جا موجود ہوتے ہیں۔ اب خود امریکی ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ ترقی کے ماڈل کم معیار کے ہیں اور ایسے ہی ہیں جیسے منشیات سے ”چھڑانے‘‘ والی نشہ آور ادویات! کیا آئی ایم ایف کا آڈٹ کبھی ہوا ہے؟ کیا وہ ممالک جو اس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں‘ اس کا حساب کتاب چیک کر سکتے ہیں؟
آئی ایم ایف آج تک جوزف سنگ لٹز (JOSEPH STIGLITZ) کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکا‘ دے بھی نہیں سکے گا! سٹگ لٹز نے 2001ء میں اقتصادیات کا نوبل پرائز جیتا۔ وہ امریکی ہے۔ ورلڈ بینک کے ساتھ بھی وابستہ رہا۔ ٹائم میگزین نے 2011ء میں اسے دنیا کے ایک سو موثر ترین افراد میں شامل کیا۔ سٹگ لٹز بتاتا ہے کہ ورلڈ بینک سے وابستہ ہونے کے 
ایک ماہ بعد اسے ہولناک تجربہ ہوا۔ وہ ایتھوپیا گیا۔ غریب ملک تھا مگر اس کا بجٹ متوازن تھا۔ افراط زر نہیں تھا۔ شرح ترقی خوب تھی۔ دفاع پر خرچ گھٹایا گیا تھا۔ کرپشن نہیں تھی‘ اس کے باوجود آئی ایم ایف نے اس کا پروگرام معطل کر دیا۔ سنگ لٹز نے آئی ایم ایف سے پوچھا اور اس کا جواب اسے مطمئن نہ کر سکا۔ مقصد یہ تھا کہ ایتھوپیا اپنے پیروں پر نہ کھڑا ہو سکے۔ اس نے برملا کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس ایک ہی سائز کی قمیض ہے جو وہ ہر ملک کو پہنانے پر تُلا ہوا ہے‘ ہر ملک کے لیے ایک جیسی گھڑی گھڑائی پالیسیاں! ”واشنگٹن کا مضبوط کنٹرول! اور جو لوگ اُس ملک کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں‘ اُن کی کوئی نہیں سُنتا‘‘
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حوالے سے سٹگ لٹز کا یہ بیان دیکھیے اور غور کیجیے۔
”مصیبت یہ ہے کہ ہمارے کچھ ادارے جمہوری نہیں‘ نہ ہی شفاف ہیں! انہیں ترقی یافتہ اور صنعتی ملکوں کے مفادات کی فکر ہے۔ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی وہ نمائندگی ہی نہیں کرتے‘‘۔
پھر اس نے یہاں تک کہا کہ آئی ایم ایف کی جگہ پر اب نئے ادارے وجود میں لانے چاہئیں کیونکہ جو موجود ہیں‘ وہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں! آئی ایم ایف اُس وقت وجود میں آیا تھا جب اکثر ممالک کالونیاں تھیں۔ اب یہ فرسودہ ادارے کیسے کام کر سکتے ہیں؟
جو ادارے خود امریکی ماہرین معاشیات کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں‘ اُن کے اوسط سطح کے اہلکار ہمارے سربراہان حکومت کو آ کر ملتے ہیں اور پروٹوکول کے مزے لیتے ہیں۔

Tags: , , ,