قوم کو یہ اعزاز مبارک ہو! زازے خان

مُدّے پر آنے سے پہلے یہ چھوٹا سا واقعہ پڑھ لیں۔

ریوتارو نونومورا (Ryutaro Nonomura) جاپان کی ایک ریاستی اسمبلی کا ممبر تھا، 2014ء میں اس پرالزامات لگے کہ اس نے پبلک فنڈ کا غلط استعمال کیا- دراصل نونومورا نے اراکین اسمبلی کے سفر کے لیے مختص رقم سے زیادہ خرچ کیا- وہ دورے بھی شامل کیے جو ذاتی مقاصد میں آتے تھے- رسیدیں کم جبکہ اخراجات زیادہ ظاہر کیے گۓ- ایوان میں گھپلے کی بازگشت سنائی دی تو نونومورا نے پریس کانفرنس بلائی اور دھاڑیں مار مار کر روتے ہوۓ اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کی- چونکہ کافر قوم ہے تو اس ” حربے ” سے دل ملائم نہ پڑے، نونومورا مستعفیٰ ہوا، معافی مانگی۔ تمام واجبات اپنی جیب سے ادا کیے، اور آئندہ کے لیے سیاست سے توبہ کی-

بعد کی کہانی زیادہ دلچسپ ہے- سیاست سے فارغ ہوا تو اپنے آبائی شہر جا کر گوشہ نشینی اختیار کرلی- جب لمبے عرصے تک کوئی خبر نہ آئی تو میڈیا نے تعاقب کیا- پتہ چلا نونو مورا اپنے گھر کے ایک کمرے تک محدود ہوچکا ہے- کھڑکیاں کالے دبیز پردوں سے ڈھکی ہوئیں اور ایک مہیب ماحول میں دن رات بسر کر رہا ہے- عوام سے ملنا درکنار، رشتے داروں سے ملاقات کا سلسلہ بھی ختم، حلیہ تبدیل کر چکا، گھنی داڑھی، لمبے بال، وزن بڑھا ہوا، گھر سے صرف رات کو نکلتا ہے ایسی حالت میں کہ سرمنہ ڈھانپا ہوا مکمل رازداری کے ساتھ، رستے میں کہیں کسی شناسا کا سامنا نہ کرنا پڑ جاۓ تو احتیاطً رات گۓ گھر سے باہر قدم رکھتا ہے-

وجہ کیا بنی؟ آپ نے اوپر پڑھ لی- جاپان چونکہ ایک مہذب جمہوری معاشرہ ہے جہاں اگرچہ کرپشن پر موت کی سزا نہیں مگر عوامی بدنامی کا ڈر اس قدر کہ لوگ کرپشن کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتے ہیں- دوسری بات عزت نفس کی ہے- وہی عزت نفس جو ہمارے ہاں سیاست میں آنے سے پہلے بحیرہ عرب میں غرق کی جاتی ہے- نونومورا میں عزت نفس تھی، غیرت کا مادہ تھا تو الزام لگنے پر نوسربازی یا نوٹنکی کرنے کی بجاۓ استعفیٰ دیا اور ہمیشہ کے لیے سیاست سے توبہ کرلی- یہی وجہ ہے کہ جاپان معاشی خود کفیل ہے، معزز ہے، اور عالمی مقام رکھتا ہے-

اب آئیے وطن عزیز کی طرف، جہاں آج کی ایک خبر ان سطور کی وجہ تسمیہ بنی-

2010ء کی بات ہے، برطانیہ دورے میں وہ سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوا، ملکی عزت کی لٹیا چہارعالم میں ڈبوئی، سارے جگ میں قومی وقارکی بھد اڑائی، ٹیم کے چہرے پر کالک ملی- ملک، قوم، کھیل، ٹیم، خاندان سبھی کو رسوا کیا، اور کیا بھی پردیس میں، الزامات درست ثابت ہوۓ تو جیل ہوئی- دیارغیر سے واپسی ہوئی تو معاشرے میں کچھ لعن طعن ہوئی اور پھر وہی شکل لے کرٹی وی پر اکثر بیٹھا نظر آیا-

کچھ شرم حیا کا پاس ہوتا تو اپنا ” بوتھا ” لے کرکہیں زمین میں گڑھ جاتا، کم ازکم یوں کھلے عام نہ گھومتا- مگر نہیں جناب، اس قوم میں بڑی برداشت ہے کرپشن اور زلت سہنے کی- صرف ملک وقوم کا نام ہی بدنام کیا تھا کونسا کسی کی ذاتی بےعزتی کی تھی- دو ٹکوں کی خاطر ملکی عزت کا فالودہ کیا تھا کونسی کسی کی پرسنل جیب ماری تھی جو لٹھ لے کر ہمیشہ پیچھے پڑا رہتا- آج وہ پی ایس ایل میں کھیلے گا اور قوم تالیاں بجائی گی، لڈیاں ڈالے گی!

کونسی نئی بات ہے اس خبر میں؟ ہم نے دیکھا نہیں کہ وزیروں مشیروں نے اربوں کے گھوٹالے کیے تو عوام نے جلسوں میں سونے کے تاج پہناۓ- شہد و زیتون سے دل پشوری کرنے والے شرجیل میمن کا حیدرآباد واقعہ یاد کر لیں جب وہ بگھوڑا دبئی سے پاکستان واپس آیا تو کیسے تاج پوشی کی گئی- اسی طرح مغلوں کے جانشین ظل الہیٰ کی صاحبزادی کو دیے گۓ سونے کے تاجوں کو بھی یاد کریں-

چھوٹے موٹے چور ہوتے تو جیل میں سڑتے، یہ تو اشرافیہ کے معزز لٹیرے ہیں- اس ملک میں یہ روایت پڑ چکی ہے کہ اربوں کھربوں ڈکارو تو ہجوم نعرے بھی مارے گا، سنہری تاج پہناۓ گا، عدالتیں ضمانتیں دیں گی، جیل میں ہرسہولت دستیاب ہوگی، اور برآمد بھی کچھ نہیں کیا جاۓ گا- زیادہ سے زیادہ نیب پلی بارگین کرے گی، 100 میں سے 50 رکھ لے گا اور 50 کی آپ کو عیاشی کی اجازت ہوگی- بس فقط یہی سزا!
کرپشن پر جب تک قوم کی نفسیات تبدیل نہیں ہوتی، برداشت کا رویہ ختم نہیں ہوتا، چھوٹے چور اور بڑے ڈاکو میں فرق برقرار رہتا ہے، کرپشن کا لاکھ قانون بنے، کرپشن ہوتی رہے گی، سرعام ہوگی، علی الاعلان ہوگی!

نوٹ: میچ فکسنگ فیم سلمان بٹ بارے خبر نیچے کمنٹ میں:

Tags: , , , , ,