ہزلِ’’بیمار‘‘

ہمارے ملک میں برسوں سے ایک متوازی ”مملکۃ الحیوانات‘‘ چلتی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی مثال ہی ملاحظہ کریں۔ یہ لوگ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ”گھوڑوں‘‘ جیسے صحت مند، ”چیتوں‘‘ جیسے طاقت ور، ”شیروں‘‘ جیسے بہادر اور ”لومڑیوں‘‘ جیسے زیرک ہوتے ہیں، لیکن یہی حکمران جب جیلوں میں مقید ہوتے ہیں توبے چارے”ہرنوں‘‘ کی طرح ترساں و پریشاں رہنے لگتے ہیں۔ ہمارے ان ”مردانِ آہن‘‘ کو جب حراست میں لیا جاتا ہے اور ان سے پوچھ گچھ شروع ہوتی ہے تو ان کی اکثریت ”کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے‘‘ کے خوف سے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ ان کے اندرونی قویٰ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ نبض ان کی تیز ہو جاتی ہے اوردل شدت سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے، جو ان کے فشارخون میں بلندی کا موجب بنتا ہے۔ پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور رنگت اڑ جاتی ہے۔ ان کی اس حالت پہ خطرے کی گھنٹی بجا دی جاتی ہے، فوراً ڈاکٹروں کو بلوایا جاتا ہے جو طبی معائنے کے بعد بتاتے ہیں کہ ”مریض‘‘ کو گھبراہٹ کا دورہ پڑا ہے، اسے سکون آور ادویات دے کر سلا دیا جائے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے

گویا اصل چیز خوف ہے۔ لیکن کیا ساری کہانی واقعی یہیں ختم ہو جاتی ہے؟کم از کم آصف زرداری پرتو یہ بات صادق نہیں آتی۔ پہلی بار جیل کی ہوا انہوں نے برسوں پہلے کھائی تھی۔ تب سے اب تک موصوف جعلی بیماریوں کے اظہار کے فن میں ماہر ہو چکے ہیں۔ دبئی میں اپنے وسیع و عریض محل میں بیٹھ کر وہ ہماری حکومت کی ناانصافی پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے ”جگری یار‘‘ کو دل کا دورہ پڑا ہے اور بقول ان کے حکومت انہیں طبی امداد فراہم نہیں کر رہی۔ سندھ میں زرداری صاحب کے ”ترجمان‘‘ قائم علی شاہ تو یہ بھی فرما چکے ہیں کہ اگر ڈاکٹر عاصم حسین کو کچھ ہوا تو حکومت کواس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ڈاکٹر عاصم حسین خود بھی کچھ عرصہ پہلے جیل والوںکو بتا چکے ہیںکہ”میرے دماغ میں رسولی ہے‘‘ دوسرے لفظوں میں ان کا مطلب یہ ہے کہ مجھے چھوڑ دیں تاکہ میں بھاگ کر اپنی جان بچالوں۔
ہمارے لیڈروں میں سب سے زیادہ کمزور دل کون ہے؟ آصف زرداری کے ذکر سے پہلے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ شریف برادران بھی جب جیل جاتے ہیں تو حالات کی شدت (اور حدت) ان کے لئے بھی ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ شہباز شریف کی کمر ”کمرِناتواں‘‘ ہو جاتی ہے اور ان کے بڑے بھائی، ہمارے موجودہ وزیراعظم صاحب، عرضیاں دینے لگتے ہیںکہ انہیں لندن کے مہنگے ہسپتال میں داخل اپنے بیمار بیٹے یا اہلیہ کی دیکھ بھال کی اجازت دی جائے۔ الطاف حسین کا دل بھی بہت کمزور ہے۔ ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگتا ہے تو انہیں بھی ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد مشرف جیسے ”کمانڈو‘‘ کو بھی بیماری کے بہانے سوجھنے لگتے ہیں۔ چوہدری شجاعت جیسے ثانوی درجے کے سیاستدان بھی جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کے گرد کوئی دام بچھایا جا رہا ہے تو بیماری کے بہانے وہ بھی بیرون ملک کی سیر کر آتے ہیں۔تاہم ہزل ہائے”بیمار‘‘ کی اس فہرست میں سرفہرست زرداری صاحب ہی ہیں۔ اپنے صدارتی استثنیٰ کی منسوخی کا امکان محسوس کرتے ہی ان کے دل میں تکلیف شروع ہو گئی اور موصوف اپنے دکھتے دل کے ساتھ دبئی پہنچ گئے۔ پاکستان میں ان کے ترجمان ڈاکٹر رحمان ملک ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیںکہ ان کے بیمار باس پہلے بھی تین بار دل کی تکلیف سہہ چکے ہیں۔ نجانے ان کا یہ بیمار دل اورکتنی تکلیفیں سہنے کی سکت رکھتا ہے! 
پہلی بار انہیں دل کی تکلیف تب ہوئی جب ایک پولیس افسر سے انہیں جان کا خطرہ لاحق ہوا تھا، اس لیے کہ اُس کی شہرت ایک بے رحم پولیس افسر کی تھی۔ دل کی اگلی تکلیف نے زرداری صاحب کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہنچا دیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ نواز شریف کے دور میں ظلم و ستم جھیلنے ان کا دل اور دماغ بھی کافی کمزور ہوگیا ہے۔ ان کے ‘شکستہ دل‘ کا علاج صرف امریکہ میں ہی ممکن تھا؛ چنانچہ انہوںنے مین ہٹن میں ارب پتیوں کے علاقے ٹرمپ ٹاورز میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ ‘میکسی ملین‘ نامی ان کا کتا، ملازمین کی فوج ظفر موج اور چہل قدمی کے لئے یارانِ تیزگام ان کے ساتھ تھے، سو ان کی زندگی مزے سے گزرتی رہی۔ تیسری بار انہیں دل کی تکلیف اس وقت شروع ہوئی جب سوئس بینکوں میں پڑے ساٹھ ملین ڈالر کے اثاثوں کی وضاحت پیش کرنے کے لئے انہیں سوئٹزرلینڈ طلب کیا گیا۔ ان کی طلبی کے سمن جاری کرنے والے جج ڈینیئل ڈیوڈ کو نیویارک کے مایہ نازماہرینِ نفسیات کی جانب سے یہ حلف نامے موصول ہوئے کہ ان کا مریض سفرکرنے کے قابل نہیں کیونکہ انہیں ‘ڈیمینشیا‘ کا مرض لا حق ہے۔ یہ مرض اختلالِ ذہنی اور صدموں کے بعد جنم لینے والے ذہنی اضطراب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فلپ سالٹیئل نے اپنے مریض کے شدید جذباتی عدم استحکام ، یادداشت کی کمزوری اور ذہنی ارتکاز سے متعلق مسائل کا ذمہ دار ان کی اسیری کے گیارہ برسوں کے دوران ان پر ہوئے تشدد کو ٹھہرایا تھا۔ ڈاکٹر سٹیفن رائک کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب کو ”اپنی اہلیہ اور بچوں کی سالگرہ تک یاد نہیں رہتی۔ وہ مسلسل خوف کا شکا ر رہتے ہیں اوران کے ذہن میں خود کشی کے خیالات آتے رہتے ہیں‘‘۔ تاہم سترہ ماہ بعد انگلستان میں ہمارے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن صاحب نے اعلان فرما دیا کہ زرداری صاحب ہر قسم کی بیماری سے پاک ہو گئے ہیں۔ نامعلوم ڈاکٹروں کا حوالہ دے کر انہوں نے بتایا کہ کسی بھی سیاسی عہدے کے لئے انتخاب لڑنے کے لئے وہ پوری اہلیت رکھتے ہیں اور کسی بھی(ذہنی) بیماری کی علامات ان میں موجود نہیں ہیں۔ البتہ ہائی کمشنر صاحب نے ایک لایعنی بات یہ بھی بتائی کہ ”اس وقت زرداری صاحب ہمہ وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں‘‘۔ 
اپنی بیماریوں کی جھوٹی کہانیاں سنا کر بچ نکلنا صرف پاکستان میں ممکن ہے۔ ذرا سوچیے کہ سترہ مہینے پہلے زرداری صاحب ایک سند یافتہ ذہنی مریض تھے لیکن انہی سترہ مہینوں میں ہی اپنی بیماری سے انہوں نے مکمل نجات پا لی۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ ذہنی امراض ختم ہوتے بھی ہیں تواس قدر جلدی ان کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا۔ ذہنی مریض عموماً عمر بھر ذہنی مریض ہی رہتا ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ زرداری صاحب نے بڑی چالاکی کے ساتھ ذہنی مریض کا کردار نبھاتے ہوئے نیویارک کے ان دونوں ماہرین نفسیات کو اپنی بیماری کا یقین دلایا تھا؛ تاہم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کے تخت کی دعویداری کے لئے وہ صحت مند ہو کر واپس لوٹ آئے اور پانچ برس کے لئے صدارت کی کرسی پر جم کر بیٹھ گئے۔ اپنی مرحومہ اہلیہ کے گزشتہ دونوں ادوار کی نسبت ان پانچ برسوں میں انہوں نے قومی خزانے کو زیادہ لوٹا۔ ایسا ڈرامہ صرف پاکستان میں ہی رچایا جا سکتا ہے۔ دنیا کا کسی بھی مہذب ملک میں ایسی جعلسازیوں اور چالبازیوںسے کام نہیں چلایا جا سکتا جو ہمارے سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ یہ لوگ بار بار، باری باری اقتدار میں آکر قومی خزانے کو مالِ غنیمت سمجھ کر زیادہ سے زیادہ لوٹتے رہتے ہیں۔
اپنی وزارت کے دوران بڑے بڑے کک بیکس لینے کے الزامات کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر عاصم حسین بھی بیماریوں کے لطیفے بنانے میں اپنے دوست آصف زرداری سے کسی طرح کم نہیں۔ انہیں بھی دل ہی کی تکلیف اٹھی ہے۔ انہیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز پہنچایا گیا جہاں وہ ہفتہ بھر رہے۔ پورا ہفتہ پیسے، وقت اور قومی وسائل کے ضیاع کے بعد یہ صاحب اب واپس جیل پہنچ چکے ہیں۔ ایک میڈیکل بورڈ نے پورے معائنے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کسی قسم کے قلبی عارضے میں مبتلا نہیں ہیں۔ انہیں شاید خوف کے باعث تیزابیت کی شکایت ہو گئی تھی۔ یعنی خوف ہی وہ بنیادی چیز ہے جو ہمارے ان نامی گرامی سیاستدانوں کو بزدل بنا دیتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ہزلِ”بیمار‘‘۔۔۔۔!