مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے

یہاں مچھلی سے مراد آصف زرداری ہیں۔ یہ انگریزی کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ مچھلی کی سڑن کا آغاز اس کے سر سے ہوتا ہے، اور بعد میں پھر دیگر حصوں میںبھی سڑن پھیل جاتی ہے۔اس کہاوت کا اطلاق عموماً اس صورتحال پہ ہوتا ہے جب کوئی تنظیم اپنے سربراہ یا قائد کی بدولت ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔سو عدالت کی جانب سے امین فہیم اور یوسف رضا گیلانی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے سے قبل کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ان کے اس لیڈر کو ہی گرفتار کر لیا جائے جس نے ایسے عہدوں پر ان کا تقرر کیا تھا جہاں قوم کو لوٹنا ان کے لئے ممکن ہو سکا ۔پہلے آصف زرداری سے حساب لینا چاہئے۔ کیا ایسا ہو سکے گا؟ قیامت تک تو یہ ممکن نہیں! امین فہیم اور یوسف رضا گیلانی احتساب کے دائرے میں آنے سے کتنی بار بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں!!پی پی پی کے یہ دونوں قدآور رہنما گزشتہ صدیوں کے معروف صوفیا ء کی اولادمیں سے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اجداد کے نام پر ایک دھبہ ہیں۔ اپنے مریدوں کو یہ لوگ احمق بنا رہے ہیں۔ وہ بیچارے ان کے چرن چھوتے ہیں اور خداؤں کی مانند ان کی تعظیم کرتے ہیں ۔ نجانے یہ لغو باتیں اس ملک میں کب تک جاری رہیں گی؟ یہ دونوں حضرات آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے وفادار ہیں۔ اس جوڑے کی ان دونوں نے بڑی خدمت کی ہے ۔ مگر ساتھ ہی اپنی جیبیں بھی انہوں نے کافی بھریں۔ کیا ان کا احتساب کبھی ہو سکے گا؟ شاید نہیں! ہم ایسا اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں نے کرپشن تو بے انتہا کی‘ اس کے باوجود برسوں سے ان پہ کوئی آنچ تک نہیں آئی ہے۔بلکہ اس کے برعکس انہیں بہتر سے بہتر عہدوں سے نوازا جاتا رہا ہے جہاں وہ اس بد قسمت قوم کا مزید پیسہ لوٹتے رہے ہیں۔بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں امین فہیم ان کے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے محکمے کے وزیر تھے۔ اسی محکمے کے ایک سابق اہلکار نے ہمیں بتایا کہ ”س‘‘ نامی ایک شخص وزیر ِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا فرنٹ مین تھا۔وہ لوگوں سے پیسے لے کے انہیں سرکاری مکانات الاٹ کیا کرتا تھا۔مذکورہ اہلکار نے یہ رشوت خوری بچشم خود دیکھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ”س‘‘ کے ہاتھ میں سارا اختیار تھا۔ہر صبح جیسے بولی لگتی تھی اور مذکورہ شخص سب سے زیادہ بولی دینے والے کو سرکاری مکان کی چابیاں تھما دیا کرتا تھا۔ یہ ایک کھلا راز تھا۔ ہاؤسنگ کی وزارت میں ہر کوئی اس کے کرتوتوں سے واقف تھا لیکن کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ان دنوں ہم فرائیڈے ٹائمز کے لئے ہفتہ وار کالم لکھا کرتے تھے۔ ہم نے امین فہیم اور ان کے فرنٹ مین کے بارے میں بھی لکھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ کسی نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی ہماری باتوں کی کسی نے تردید کی۔ ہمارا معاشرہ ایک بے شرم معاشرہ ہے۔ ہم لوگ کرپشن سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔اب ایک بار پھر سننے میں آرہا ہے کہ انسداد کرپشن کی ایک وفاقی عدالت نے بروز جمعرات مخدوم امین فہیم اور سید یوسف رضا گیلانی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں۔یہ حکم نامہ اس وقت جاری ہوا جب وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کی جانب سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی((TDAP میں اربوں روپوں کے سیکنڈل میں ان دونوں حضرات کے خلاف بارہ نئے کیسوں کے ساتھ ایک چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس ضمن میں چوہے بلی کا کھیل گزشتہ دو سالوں سے جاری تھا۔ پچھلے برس کے اوائل میں ان دونوں کو ٹی ڈی اے پی سے ہی متعلق درجن بھر دیگر مقدمات میں عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری ملی تھی۔
پاکستانی عدلیہ کو بھی ذرا سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اپنے ناخن اسے قدرے تیز کرنا پڑیں گے‘ ورنہ تو وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے بعدمجرموں کو ضمانتیں دینے کا یہ سلسلہ سرکاری خزانے اور سبھی کے وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ویسے کیا عدالت جانتی ہے کہ امین فہیم اس وقت شدید علیل ہیں اور لندن کے ایک ہسپتال میں سرطان کے مرض سے نبرد آزما ہیں؟ لاہور کے ایک انگریزی روزنامے میں پچیس جون 2015ء کویہ خبر چھپی ہے کہ گزشتہ ماہ جرمنی کے شہر برلن میں اسی سالہ امین فہیم کا ایک بڑا آپریشن ہوا اور اس وقت لندن کے ایک ہسپتال میں ان کا بعد ازآپریشن علاج جاری ہے۔ان کی جماعت کے ایک رہنما نے مذکورہ روزنامے کو بتایا کہ امین فہیم بہت کمزور ہو چکے ہیں اور بستر پر پڑے اپنی بیماری سے لڑ رہے ہیں۔شاید وہ بہرے بھی ہو چکے ہیں کیونکہ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت ایسی ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنے دوستوں اور جماعتی رہنماؤں کی فون کالز بھی نہیں سن رہے۔ان سب باتوں میں کس قدر صداقت ہے؟ یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔ ہمیں تو بس یہی پتہ ہے کہ ہمارے سیاستدان چاہے آصف زرداری ہوں یا بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ یہ سب اسی وقت شدید علیل ہوتے ہیں جب انہیں جیل جانے کا خدشہ درپیش ہو جاتاہے۔
چلیں ٹھیک ہے، ایک مبینہ ملزم اگر ناقابلِ رسائی ہے، سن نہیں سکتا، اس سے رابطہ ممکن نہیں تو دوسرے کے بارے میں کیا کہیں گے؟ اس کی صحت کیسی ہے؟ کیا یوسف رضا گیلانی کی صحت کے بارے میں پی پی پی کا کوئی ترجمان ہمیں آگاہ کرے گا؟امریکی میگزین فوربس نے یوسف رضا گیلانی کو دنیا کا اڑتیسواں سب سے زیادہ طاقت ور آدمی ٹھہرایا تھا۔نجانے کیوں؟ ان کے باس آصف زرداری کو کیسے یہ اعزاز نہیں ملا؟ فوربس والوں کا خیال تھا کہ ” گیلانی بن لادن سے کم طاقت ور ہیں کیونکہ اپنے ہی ملک میں وہ انہیں ڈھونڈ نہیں پائے۔ وہ پاکستان کی نوزائیدہ سویلین حکومت کے سربراہ ہیں، دہشت گردوں کی تلاش کی ذمہ داری انہوں نے فوج کو سونپ دی ہے، اوباما، طالبان، القاعدہ اور کالعدم عسکریت پسند گروہوں کے تدارک میںمصروف رہتے ہیں۔کیونکہ بقول ان کے ہم خطے میں استحکام کے خواہاں ہیں۔ ہم خود انتہا پسندی اور دہشت گردی کے شکار ہیں۔تاہم ان سب باتوں کے باوجود پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی چابیاں انہی کے ہاتھ ہیں۔ ‘‘ فوربس کا یہ اندازہ تو بالکل غلط ہے۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی 
چابیاں گیلانی صاحب کے پاس کبھی نہیں رہیں۔ کیا ہم سب نہیں جانتے کہ یہ اختیارآرمی چیف جنرل کیانی کا تھا؟ یہ کوئی خفیہ بات نہیں۔پڑھنے اور سمجھنے والے سبھی اس سے واقف ہیں!
گیلانی اور امین فہیم کی کرپشن کی داستانوں نے ہم میڈیا والوں کو بہت مصروف رکھا ہے لیکن یہ دونوں حضرات معروف کرتب بازہوڈینی کی مانند کسی کی پکڑ میں آنے سے ہمیشہ بچ نکلتے رہے ۔ آصف زرداری نے جب یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا تو اس وقت بھی یہ موصوف کوئی دودھ کے دھلے نہیں تھے۔ بی بی کے دوسرے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میںغیر مستحق افرادکو ٹھونسنا بھی ان کے کالے کرتوتوں میں سے ایک ہے۔ان کے اسی کیس سے متعلقہ ایک نیب افسر نے ہمیں مثالیں دی ہیں کہ کس قدر قابل مذمت طور پر موصوف نے اپنے سپیکر کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔انہوں نے بعد میں بے شک جیل بھی کاٹی، جس دوران ان کے سر کے بال بھی اڑ گئے ۔ اس دوران پی پی پی کے بڑوں نے ان کا پوچھا تک نہیں اور نہ ہی مشرف دور میں کسی نے ان کی ضمانت کی کوئی کوشش کی۔ تاہم این آر او نے انہیں بچا لیا اور وہ واپس آگئے۔ اب ان کی صحت قابلِ رشک ہے،ڈیزائنر ملبوسات زیب تن رکھتے ہیں اور شخصیت بھی ان کی شاندار ہے۔ ان کی اہلیہ فوزیہ گیلانی بھی قرض نادہندہ ہیں لیکن این آر او کی مہربانی سے وہ بھی احتساب سے محفوظ رہی ہیں۔بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں اگر امین فہیم اور یوسف گیلانی کو کرپشن کی بدولت سیاست سے نااہل کر دیا جاتا تو ٹی ڈی اے پی میں اربوں روپے کا یہ سکینڈل نہ ہوتا، لیکن پاکستان میں قانون صرف اندھا نہیں بلکہ گونگا اور بہرہ بھی ہے!