ڈیئر عمران خان!

فیاض ظفر

ڈیئر عمران خان

مجھے ڈر ہے کہ این اے 122 کی کامیابی کے پیچھے لگ کر آپ اپنی اور میری بربادی کا سفر دوبارہ سے شروع نا کر دیں۔ گزرے ڈھائی سالوں نے بہت دفعہ آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ پر سوال اٹھائے ہیں اور ایسا بالکل نہیں کہ میرے لیے یہ کوئی انکشاف تھا۔ میں کبھی بھی آپ کی سیاسی بصیرت کو لے کر کسی خوش فہمی کا شکار نہیں تھا پھر بھی 2013 کے الیکشن میں جب میں نے اپنا ووٹ قومی اسمبلی کی نشست پر کھڑے اس امیدوار کو دیا جس کے پاس آپ کی پارٹی کا ٹکٹ تھا تو میں جانتا تھا کہ میرا ووٹ ضائع ہوگا۔ مگر آپ کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی خواہش کا اظہار صرف اسی صورت ممکن تھا۔

آپ نے میرے بھروسے کو توڑا اور میرے مان کو ملیامیٹ کر دیا۔ آپ نے ان 77 لاکھ لوگوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی جنہوں نے آپ کی پارٹی کو ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بنا دیا۔ آپ بہت آسانی سے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مؤثر اور منفرد اپوزیشن سیاست کی داغ بیل ڈال سکتے تھے۔ آپ پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت کا چہرہ بدل سکتے تھے۔ مگر اپنی ہٹ دھرمی، وقت پر فیصلہ نہ کرنے اور کسی سے بھی بنا کر نا رکھنے کی بری عادت نے ایک کاٹھ کے الو کو ٹین ڈبا بجانے کا موقع دے دیا جسے ڈھائی سالوں سے اسمبلی کے فلور پر چار و ناچار سننا پڑتا ہے۔

کیا 77 لاکھ لوگوں نے اس لیے آپ کو ووٹ دیا تھا کہ آپ اپوزیشن کے بجائے کسی لوہے کے ڈبے پر بیٹھ کر پختون دھنوں پر داد وصول کریں؟

الیکشن کے بعد تین باتوں پر فوری اور ہنگامی بنیادوں پر دھیان دینے کی ضرورت تھی مگر آپ کی ترجیحات سمجھ سے بالا رہیں۔

تبدیلی، نوجوان اور نیا پاکستان کے نعروں کو جس سطح پر پذیرائی ملی وہ قابلِ ستائش تھی۔ آزادی کی 7 دہائیوں کے بعد آپ کے بیانیے نے پورے سیاسی مباحثے کی شکل بدل کر رکھ دی، مگر اس کے باوجود پنجاب میں آپ کو فتح نصیب کیوں نہ ہوئی؟ آپ کے پاس اس کے دو جواب تھے اور آج تک دو ہی جواب ہیں۔

ایک یہ کہ مخالف جماعت نے آزمائے ہوؤں کو ساتھ ملا کر سادہ لوح عوام کو پھر سے بے وقوف بنایا، اور دوسرا یہ کہ اس سارے معاملے میں افتخار چوہدری، الیکشن کمیشن اور ن لیگ کی ملی بھگت تھی۔

میں اس نظریے پر بات کر کے این اے 122 کی کامیابی کا نشہء دو آتشہ کرنا نہیں چاہتا۔ مگر کیا وجہ تھی کہ اتنی ‘مضبوط اور منظم دھاندلی’ کے باوجود ن لیگ کے ناقابل تسخیر قلعے یعنی لاہور میں 1988 کے بعد پہلی مرتبہ تین سیٹیں کسی دوسری جماعت کو مل گئیں؟ اہم ترین بات یہ بھی تھی کہ انہی حلقوں میں آپ کے بقول پنجاب کا 80 فیصد ترقیاتی بجٹ کھپا دیا گیا۔ میٹرو اور موٹر وے کے معیار کی سڑکوں سمیت ہر طرح سے ان علاقوں پر سال ہا سال فنڈز کی برسات رہی۔ پھر بھی ن لیگ ان حلقوں سے ہار گئی۔ کیا آپ نے اس اہم سوال پر غور کیا کہ جو مستقبل کی کسی بھی کامیابی کی کنجی تھا؟

دوسری اہم بات کا تعلق نوجوانوں سے تھا۔ آپ کے نیا پاکستان کے نعروں کو ابلاغ کے تمام ذرائع نے ٹاک آف دی ٹاؤن بنا دیا۔ سب سے زیادہ مقبولیت اسے نوجوانوں میں ملی۔ آپ کو چاہیے تھا کہ آپ نوجوانوں کے مسائل کو اپنی اپوزیشن سیاست کا موضوع بناتے، نوجوانوں کی محرومیوں، ان کے اندر جو ناامیدی اور ناکامیوں کا لاوا ابل رہا تھا، اس کو ایک سیاسی تحریک کی شکل دیتے، اور اسمبلی میں پے در پے ایسے بل پیش کرتے جن کا مقصد حکومت کی نالائقی کا پول کھولنا ہوتا۔

ٹی وی اسکرین پر اپنی تیوریوں بھری پیشانی کے ساتھ ایک ہی بات کو بار بار دہرانے کے بجائے نوجوانوں کے اور روزمرہ کے معاملات زیرِ بحث لاتے، ساتھ ہی ساتھ کے پی میں ایسے اقدامات کا ڈھیر لگا دیتے کہ جس کے نتیجے میں امور نوجوانان سے لے کر بے روزگاری اور تعلیم جیسے اہم معاملات حل کی جانب بڑھتے، مگر آپ ایک لانگ مارچ اور دھرنے کے چکر میں پڑ گئے۔ شارٹ کٹ کے اس لائحہ عمل نے الیکشن کی ساری توانائی کو ہوا میں تحلیل کر دیا۔ لاہور پر توجہ نہ دینے کے بعد یہ آپ کی سیاسی حکمت عملی کی دوسری بڑی خامی تھی۔

تیسری بات کا تعلق انتخابی سیاست پر قابض وہ گروہ ہے جس کو الیکٹیبل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کو چاہیے تھا کہ الیکشن کے بعد ایک ایک حلقے میں جس جس انداز سے پرانے گرگوں نے سیاسی طور پر آپ کو بلیک میل کیا اور آپ کے امیدواروں کو مشکل میں ڈالا، وہ سارا عمل وہ ساری کارروائی عوام کے سامنے اور خاص طور پر نوجوانوں کے سامنے لاتے۔ بجائے سولو فریم میں چوبیس گھنٹے ٹی وی اسکرینوں کی رونق بننے کے آپ اگر اسی ٹی وی سکرین کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے تو عوام کی ہمدرردیاں آپ کے ساتھ تھیں۔ کم از کم اس طرح آپ آسانی کے ساتھ آنے والے دنوں میں بہت سی بہتر آئینی اور سماجی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ ایک مؤثر اپوزیشن کا یہی کام ہوا کرتا ہے مگر ڈی جے بٹ کی بے سری راگنی نے لگتا ہے کسی کو سوچنے سمجھنے کے قابل نا چھوڑا۔

این اے 122 آپ کے لیے ایک جال ہے۔ خدارا اس سے بچیں۔ اس میں سے کچھ بھی نہیں نکلنا۔ حکومت رہے نا رہے ابھی تک آپ لوگوں کے ذہنوں میں ایسا کچھ ڈالنے میں ناکام ہیں کہ جس کی بنیاد پر اگلے الیکشن میں آپ کامیابی کے قریب بھی پھٹک سکیں۔ الیکشن کمیشن فرشتوں پر بھی مبنی ہو، آئین اور قانون میں جتنا مرضی اختیار ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔ آپ نہیں جیت سکتے۔ آپ کی جیت کی صرف ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگ دہائیوں نہیں صدیوں پرانے مائنڈ سیٹ سے باہر نکل کر فیصلہ کریں۔

بجائے وقتی کامیابیوں پر بھنگڑا ڈالنے کے، اس موقع کو پوائنٹ کے طور پر استعمال کریں۔ یہ کہنا چھوڑ دیں کہ منظم دھاندلی ہوئی کیونکہ یہ لوگوں کے ووٹ کی توہین ہے۔ فرض کر لیں ایسا ہوا بھی تب بھی لاہور میں آپ کی تین سیٹیں کہیں نا کہیں راستے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی پر فوکس کریں۔ ناممکن کو ممکن نا بنائیں مگر جو ممکن ہو چکا ہے اس کی بنیاد کو مضبوط کریں۔ پچھلے ڈھائی سال تو آپ نے میرے ووٹ کو شرمندہ کیا۔ اگلے ڈھائی سال میں ہی مجھے پچھتاوے کے عذاب سے چھٹکارا دلا دیں، ورنہ اگلی مرتبہ میں اپنا ووٹ دوبارہ ضائع نہیں کروں گا۔ ہرگز نہیں۔