انسدادِ دہشت گردی اور ٹیکنالوجی


سیو دی نیشن (Save The Nation)کے افسران خاور سعید اور ضیاء القمر صاحب تفصیلات بتاتے چلے جارہے تھے۔ ادھر میرا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ایک طرف وہ مخلوق ہے ، جو ا س ملک کو ناکام ریاست قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔ ادھر یہ ہیں کہ وطن کے دفاع میں اپنی ذات بھلا بیٹھے ہیں ۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس، وہ فوج اور سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں ۔ 
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
خاور سعید اور ضیاء القمر صاحب آئی ٹی کے ماہر ہیں ۔ 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول کا سانحہ رونما ہوا تو انہیں بڑی شدّت سے سسٹم میں موجود خرابیوں کا احساس ہوا۔ دہشت گردی کا واقعہ رونما ہونے کے بعد سکیورٹی ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ اطلاع بھی انہیں دیر سے ملتی ہے ۔ پھر اہلکاروں کی کارکردگی جانچنے کا کوئی طریقِ کار وضع نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سکیورٹی والے حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد کھانا کھا کر اور کمر سیدھی کر کے ایک دو گھنٹے بعد اپنی سہولت کے مطابق جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں ۔اس اثنا میں جو ہونا ہوتاہے ، وہ ہو چکتا ہے ۔ متاثرین کو تب مدد کی نہیں بلکہ دعائوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
خاور سعید، ضیاء القمر اور ان کی ٹیم ایک پورا منصوبہ تیار کر کے آئی جی پختون خوا ناصر درّانی سے ملی۔ صوبے کے پچیس اضلاع میں تمام پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں اور حساس مقامات کی حفاظت کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لینے کا منصوبہ ۔ درّانی صاحب اس 
منصوبے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ اسی وقت کام شروع کرنے پر اصرار کرنے لگے ۔خاور سعید اور ضیاء القمر صاحب اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہو پائے تو اس میں درّانی صاحب کے بھرپور تعاون کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ انہوںنے پختون خوا کے پچیس ضلعوں میں 45ہزار سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دیگر حساس مقامات میں ایک سسٹم نافذ کیا۔صوبے بھر میں پینتالیس ہزار افراد کے موبائل فون ، ان کے کمپیوٹر اور دیگر آلات میں خصوصی سافٹ وئیر ڈال دیے گئے ۔ اب کسی ناگہانی کی صورت میں انہیں صرف ایک بٹن دبانا تھا۔ یہ پینتالیس ہزار افراد ، ان کے فون نمبر او رکمپیوٹرز سیو دی نیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں ۔ ان میں سے کوئی خواہ مخواہ یہ بٹن دبائے تو آسانی سے اس کی جان چھٹے گی نہیں۔ اسے پوری تفتیش سے گزرنا ہوگا۔یہ بٹن دبنے کے چند سیکنڈ میں یہ اطلاع مقامی ڈی پی اوسے لے کر صوبے کے آئی جی تک جاتی ہے ۔ تمام افراد چونکہ رجسٹرڈ ہیں، اس لیے ایسی کوئی بھی اطلاع غلط نہیں ہو سکتی اور وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ آئی جی کے موبائل پر پیغام موصول ہوتاہے کہ فلاں علاقے کے فلاں سکول سے مدد طلب کی گئی تھی ۔ مقامی پولیس افسران یہ بات جانتے ہیں کہ آئی جی تک ا طلاع پہنچ چکی ہے اور انہیں جوابدہی سے گزرنا ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بھرپور کارکردگی دکھاتے ہیں ۔دہشت گرد اگر موبائل چھین کر اس کا غلط استعمال کرنا چاہیں تو بھی ممکن نہیں کہ سیو دی نیشن کے کمپیوـٹر 
میںاس جگہ کی نشاندہی نقشے کے ساتھ ہو رہی ہوتی ہے ، جہاں سے بٹن دبایا گیا ہے ۔ہنگامی مدد طلب کرنے کی اطلاع متوازی طور پر اعلیٰ ترین حکام تک پہنچتی ہے ؛لہٰذا مقامی تھانے کے اہلکار اور دیگر سکیورٹی ادارے جوابدہی کے احساس تلے دبے ہوتے ہیں ۔ شروع شروع میں جب یہ سسٹم نافذ ہوا تو پولیس نے خراب گاڑیاں ، ناکافی پیٹرول اور دیگر مسائل کی نشاندہی کی ۔ نتیجہ یہ تھا کہ ان تمام سازو سامان کو بھی اپ گریڈ کر دیا گیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے ذاتی دلچسپی لے کر یہی سسٹم اسلام آباد میں نافذ کیا۔ اسلام آباد میں 1700تعلیمی اداروں ، میڈیا ہائوسز،حساس مسجدوں اور امام بارگاہوں کو رجسٹرڈ کر دیا گیا۔ وزیرِ داخلہ نے خود کئی بار چیک کرنے کے لیے اس سسٹم کو استعمال کر کے دیکھا۔ اہلکاروں کو مطلق خبر نہ تھی کہ چیکنگ کی جا رہی ہے ؛لہٰذا وہ برق رفتاری سے جائے وقوعہ تک پہنچے ۔ دیر سے پہنچے والوں کی سرزنش کی گئی ۔ 
دوسری طرف 15اور 1122جیسے اداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کوئی بھی کسی بھی نمبر سے فون کر سکتاہے ۔ اسلام آباد کے 15مرکز میں روزانہ اوسطاً تین ہزار فون موصول ہوتے ہیں ۔ موبائل میں بیلنس نہ ہونے ، حتیٰ کہ سم بلاک ہونے کی صورت میں بھی 15مفت ملایا جا سکتاہے ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ گپ شپ لگانے کے لیے فون کرتے ہیں ۔ بعض لوگ ریلوے سٹیشن ، ہوائی اڈے اور دیگر مقامات کا فون نمبر معلوم کرنے کے لیے 17کی بجائے 15کا نمبر ملاتے ہیں ۔ تین ہزار میں سے بمشکل ڈیڑھ سے دو سو سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن وہ بھی زیادہ تر ذاتی لڑائی جھگڑے سے متعلق ہوتی ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 15والوں کو پہلے تین چار منٹ صرف اس بات پہ صرف کرنا ہوتے ہیں کہ معاملہ سنجیدہ بھی ہے یا کوئی خوامخواہ وقت گزاری کے لیے فون کر رہا ہے۔ 1122والے بھی انہی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ۔ 
دہشت گردی سے انتہائی حد تک متاثر ملک میں تمام اہم اور حساس مقامات کو رجسٹر کرنا اور ہنگامی مدد کا طریقِ کار وضع کرنا ایک پرائیویٹ ادارے کا نہیں ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا کام تھا۔ پختون خوا اور مرکز نے تو اس پر عمل درآمد کیا۔ باقی صوبے لمبی تان کر سو رہے ہیں ۔سندھ پولیس کے بارے میں تو رینجرز نے شکایت کی ہے کہ اس کے بعض افسران خود جرائم میں مددگار بلکہ ملوّث ہیں۔ بلوچستان حکومت نے دہشت گردی کے خلاف اچھی جنگ لڑی ہے۔ وہاں اب شکست خوردہ جنگجو ہتھیار ڈال رہے ہیں ۔ پنجاب حکومت نے ایسے معاملا ت سے نمٹنے کا سب سے دلچسپ طریقِ کار وضع کیا ہے ۔ حادثہ ہونے کے دو روز بعد خادمِ اعلیٰ بذاتِ خود جائے وقوعہ پر جاتے اور مقامی تھانے کے افسران کو معطل کر دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خادمِ اعلیٰ سے ملاقات کرنے والے تمام عالمی لیڈران ان کے وژن کی ہمیشہ تعریف کرتے ہیں ۔ خادمِ اعلیٰ کی حکومت نے ساہیوال میں کول پاور پروجیکٹ کا جس قسم کا شاندار منصوبہ بنایا ہے ، اس پر روشنی ڈالنے پر سر خالد مسعود خان بلاشبہ ستائش کے مستحق ہیں ۔ لب لباب اس کا یہ ہے کہ ساری توانائیاں کوئلے کی آنیوں جانیوں پہ ہی خرچ ہو جانی ہیں ۔ وسائل کے اس قدر بے درد ضیاع کی عالمی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ہوگی ۔
خاور اور ضیا القمر صاحب تفصیلات بتاتے رہے اور میں چپ چاپ سنتا رہا۔ ایک موبائل فون کمپنی نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک نیم جان سا پروجیکٹ بنایا۔سب سے پہلی شرط اس نے یہ عائد کی کہ رجسٹرڈ ہونے کے خواہش مندوں کو تین تین سمیں خریدنا ہوں گی ۔ جس منصوبے کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہو، اس میں خیر کہاں سے برآمد ہوتی ۔انسدادِ دہشت گردی توخیر کیا ہوتی ، یہی بہت تھا کہ کمپنی کی سمیں بک گئیں ۔ پی ٹی اے نے یہی سسٹم کاپی کی کوشش کی لیکن آئی ٹی کے منصوبوں میں بڑی مہارت درکار ہوتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسے دن میں درجنوں کے حساب سے شکایات موصول ہونے لگیں ۔ بالآخر اس منصوبے کو بند کر دیا گیا۔ 
سول ادارے تو سوئے پڑے ہیں ۔ فوج دبائو ڈالے تو شاید پنجاب اور سندھ میں بھی یہی سسٹم نافذ ہو سکے ۔ خاور اور ضیاء القمر صاحب بخوشی ان کی رہنمائی کریں گے ۔ ا ن کے پاس مگروسائل کی کمی ہے ۔ پختون خوا اور اسلام آباد کے منصوبے بھی انہوں نے بلا کسی معاوضے کے تکمیل تک پہنچائے ہیں ۔ یہ اس قوم پر ان کا بہت بڑا احسان ہے ۔