فتح کابل کے ساتھ طالبان کے لئے درپیش چیلنجز
تحریر: ڈاکٹر زازے خان
مدرسہ گان بالاخر کابل کے پایہ تخت پر براجمان ہوگۓ- یہ منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ایک ابتدائی مرحلہ ہونا چاہیے- مدرسہ گان کی کامیابی مغربی (امریکی) آرڈر کی حاکمیت وبالادستی پر سوالیہ نشان ثبت کرگئی- استعماری قوتوں کی کوشش ہوگی کہ وہ مدرسہ گان کا معاشی، سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر ہر پہلو سے ناطقہ بند کرے- ہر اہم فورم پر بائیکاٹ اور کثیرالاقوامی فورمز بشمول یو این، آئی ایم ایف، اور ورلڈ بنک ایسے اداروں تک رسائی نہ ہونے دے- اسے ایک شودر (pariah) اسٹیٹ پیش کرے- اور اسے سفارتی تنہائی میں دھکیلے تاکہ وہ اپنے معاشی وسماجی بوجھ تلے دب کر ناکامی سے دوچار ہو- اور بالاخر بحالت مجبوری وہ عالمی طاقتوں کی ڈکٹیشن قبول کرکے ان کی منشاء سے اپنی پالیسز کو تشکیل دے- مغربی میڈیا کی معتصبانہ رپورٹنگ ابھی سے اس بات کے اشاریے دے رہی ہے-
حل یہ ہے کہ وہ ایک انکلوسیو حکومت تشکیل دے جو قومی طرز کی ہو اور تمام متحارب دھڑوں کی شرکت یقینی بناۓ- لازمی نہیں کہ وہ مغربی لبرل جمہوری ماڈل ہو اور الیکشن کے زریعے ہی بنے- مقامی روایات وتہذیب کے اصولوں کے مطابق ایک پارلیمنٹ (جرگہ) ہوسکتا ہے یا پھر اسلامی خطوط پر شوریٰ منتخب کی جاسکتی ہے جس میں اہل مرد و زن کی شرکت یقینی بنائی جاسکے- قوم کی یکجہتی اور ایک مشترکہ نظام پر متفق ہونا ہی مغربی استعماریوں کی چال بازیوں اور کہہ مکرنیوں کے آگے دیوار بن سکتی ہے- مدرسہ گان کے مرکزی ترجمان اگرچہ انکلوسیو حکومت کا بار بار عندیہ دے رہے ہیں جو کہ خوشگوار مستقبل کی نوید دیتا ہے-
مدرسہ گان کے دیگر اہم چیلنجز تین ہیں:
اسٹیٹ کرافٹ: ملکی نظام کو کیسے چلایا جاۓ گا- 90 کی دہائی میں مدرسہ گان کی حکومت کا واحد کریڈٹ خانہ جنگی کا قدرے خاتمہ اور سماج کو پرامن کرنا تھا مگر یہ لازمی شرط ہے جو کہ کافی نہیں- جدید ریاستی لوازمات یعنی ادارے ناپید رہے- دفاع، خارجہ، بیوروکریسی، محصولات، تعلیم وصحت، مفاد عامہ کے نظام کو چلانے والے ادارے کھڑے نہ کیے جاسکے، اگرچہ براۓ نام موجودگی ضرور تھی- مدرسہ گان کو نظامِ ریاست رواں رکھنے اور بدحالی کی شکار عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے ان اداروں کی تشکیل پر کام کرنا ہوگا- اس مقصد کے لیے ہنرمند، اہل، قابل، اور مختلف نظریات وسماجی پسِ منظر رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوگی اور وہ تبھی ہوگا جب وہ افغانستان سے برین ڈرین کو روکیں گے- شخصی آزادی اور لبرل طرز زندگی کے خواہاں طبقے کو اپنے ملک میں ان بنیادی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کروائیں گے-
کرپشن وبدعنوانی کا خاتمہ اہم ترجیحات میں ہونا چاہیے- بیس سالہ کٹھ پتلی حکومت کی چاندماری کا خلاصہ یہی ہے کہ اگر دنیا بھر کا خزانہ بھی تھما دیا جاۓ مگر اگر وہ چند لوگوں تک ہی محدود رہے، اقرباء پروری پروان چڑھے اور نیچے اہل افراد اپنے جائز حق کو ترسیں تو معاشرے کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے- کٹھ پتلی حکومت بدعنوانی کا استعارہ رہی- وار لارڈز اور ان کے کرونیز کے اکاؤنٹس بھرے اور محل تعمیر ہوتے رہے جبکہ عام افغان نان و نفقہ کو ترستا رہا- اسی لیے جب مدرسہ گان کی یلغار بڑھی تو فوج نے ساتھ دیا اور نہ ہی عوام نے-
امن وسماجی انصاف: معاشرے اگر سماجی انصاف سے عاری ہو جائیں تو جنگل کا سماں پیش کرنے لگتے ہیں- مدرسہ گان دور مت جائیں اپنے پڑوس میں موجود ریاست کو ہی دیکھ لیں جہاں ریاست بھی ہے، ادارے بھی ہیں، حتیٰ کہ ایٹمی اثاثے بھی مگر عوام بدحال ہے، بدامنی ہے، اور نوجوان نسل بدظن وبیزار بھی، وجہ سماجی عدم انصاف ہے-
کٹھ پتلی حکومت کی ناکامیوں پر قابو پانا ہی مدرسہ گان کی کامیابی شمار ہوگی- ان کے پاس ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اسٹیٹس کو کے نظام سے چھٹکارا پائیں، نئی سوچ، نظریات اور نظام کی بنیاد رکھیں جو امن، سماجی انصاف، اور دیرپا خوشحالی کے در کھولے اور دیگر اسلامی ممالک کے لیے ایک مثال بنے- رب ان کا حامی وناصر ہو-
ڈاکٹر زازے خان معاشیات میں اٹلی سے پی ایچ ڈی ہے حال مقیم سویڈن، اور گرد و پیش کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔