سرگئی اینانووایک ٹن سے کم وزن ہیلی کاپٹر میں تن تنہا دنیا کے گرد سفر کرنے والا پہلا شخصِ :بہ شکریہ بی بی سی اردو

جولائی میں ایک روسی مہم جُو سرگئی اینانوو کینیڈا اور گرین لینڈ کے درمیان برفیلے پانی میں اپنا ہیلی کاپٹر اُتارنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تیز ہواؤں خطرناک موسم اور چند غیر متوقع مہمانوں سے دو روز نبرد آزما رہنے سے متعلق کہانی اُن کی زبانی سنیے۔

’ہیلی کاپٹر اُڑاتے ہوئے میں ہمیشہ بہت آزادی، اطمینان اور خوشی محسوس کرتا ہوں اور بالکل ایسا ہی کچھ میں 25 جولائی کو 11:30 بجے سے تھوڑی دیر پہلے بھی محسوس کر رہا تھا۔

کینیڈا میں ای کالواِٹ سے گرین لینڈ کے نیوک تک چھ گھنٹے کی پرواز کے بعد میں آدھے راستے تک پہنچ چکا تھا۔ میں دُھند کی ایک دبیز موٹی تہہ کے اُوپر اور بادلوں کی ایک روشن چھتری تلے پرواز کر رہا تھا۔اپنے روبیسن R22 کو روئیں دار بُھورے راستے سے گزارتا ہوا انجن کے شور اور بے حد خوشی کا احساس لیے اُس وقت میں دنیا میں بالکل تنہا تھا۔

ایک اضافی فیول ٹینک جس کا نام میں نے ولسن رکھا تھا میرے برابر میں مسافروں کے لیے مخصوص سیٹ پر پڑا تھا۔ ڈیوس سٹریٹ کے ٹھنڈے پانیوں اور برف کی تہوں اور دُھند کے باعث میں 1500 فٹ نیچے گہرائی تک نہیں دیکھ پا رہا تھا۔

اچانک ہی میں نے ہیلی کاپٹر کی دُم میں ایک جھٹکا محسوس کیا اور مجھے محسوس ہوا کہ ہیلی کاپٹر کے پروں کی تقریباً نصف قوت ختم ہوگئی ہے۔ انجن بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا اس لیے میں نے اسے ہیلی کاپٹر کے ٹرانسمیشن میں معمولی خرابی کا ایک اشارہ سمجھا۔

ہیلی کاپٹر کی رفتار تیزی سے کم ہو رہی تھی جو کہ اچھی علامت نہیں تھی۔ میں آسمان سے کنکر کی طرح زمین کی جانب گرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے میں نے ہیلی کاپٹر کو سنبھالنے کے لیے اُس کی بلندی کم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

ایک ٹن سے کم وزن ہیلی کاپٹر میں تن تنہا دنیا کے گرد سفر کرنے والا پہلا شخص بننے کے لیے یہ میرے سفر کا 42 واں روز تھا

ہیلی کاپٹر ہلنے لگا اور پھر خطرناک طریقے سے ایک جانب کو جُھکنے لگ گیا اور چند لمحوں کے دوران ہی مجھ پر یہ واضح ہوگیا کہ میں مزید پرواز جاری نہیں رکھ پاؤں گا۔

ہیلی کاپٹر کی دم فوراً ڈوب گئی۔ مجھے پتہ تھا کہ میرے وزن سے ہیلی کاپٹر ایک طرف جھک سکتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنا وزن بائیں جانب ڈال دیا تاکہ ہیلی کاپٹر ایک طرف ہو جائے۔ وہ ایک طرف گر گیا اور اس کے پر جو کہ ابھی بھی گھوم رہے تھے سطح کے ساتھ ٹکرائے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے اپنی حفاظتی بیلٹ کھولی اور دروازہ کھولا۔ یک دم میں اپنی گردن تک ٹھنڈے پانی میں تھا۔ میں نے بچاؤ کے لیے گرم کپڑے تو پہن رکھے تھے لیکن وہ صرف میری ٹانگوں اور کمر پر تھے۔ اوپر والا حصہ میں نے کھول رکھا تھا کیونکہ اسے بند کیے ہوئے میرے لیے ہیلی کاپٹر چلانا مشکل تھا۔ اس وقت مجھ میں ایڈرلین اتنی زیادہ تھی کہ مجھے پانی کے ٹھنڈا ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں ہیلی کاپٹر سے باہر تیرتے ہوئے نکلا تاکہ وہ تحتہ نکال سکوں جو میری سیٹ کے نیچے تھا۔

ایک ٹن سے کم وزن ہیلی کاپٹر میں تن تنہا دنیا کے گرد سفر کرنے والا پہلا شخص بننے کے لیے یہ میرے سفر کا 42 واں دن تھا۔

ایک لمحے میں ہزاروں خیالات میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ جن میں سے ایک یہ تھاکہ ’یا خُدا میں 34000 میل تک پرواز کر چکا ہوں اور اب بس 4000 میل مزید باقی ہیں جس کے بعد میں ماسکو میں اپنا عالمی ریکارڈ بنالوں گا۔ ضروری تھا کہ یہاں تک پہنچ کر میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا جو فلوریڈا کے دلدلی علاقوں میں نہیں ہوا، کینیڈا کے میدانوں میں نہیں ہوا اور حتیٰ کہ سائیبیریا میں بھی کہیں نہیں ہوا جہاں میں کم از کم زمین پر لینڈ کرنے کے اور اپنا فون نکال کر کسی کو مدد کے لیے بُلانے کے قابل تو تھا۔‘

مجھے صحافیوں کا پسندیدہ لفظ ’گرکرتباہ ہونا‘ بالکل پسند نہیں ہے۔ ہیلی کاپٹر گر کر تباہ نہیں ہوا تھا بلکہ یہ پانی پر مجبوراً لینڈنگ تھی اور یہ بہت کنٹرول اور پُرسکون انداز میں ہوئی۔ میں مکمل طور پر محفوظ تھا۔

میرے پاس شاید آدھے لیٹر کے قریب پانی اور تقریباً 2000 کیلوریز پر مشتمل قوت بخش غذا کے چند پیک موجود تھے۔ میرے پاس تین مشعلیں بھی تھیں۔

میں کھڑا ہوا اور خون کی روانی کے لیے آس پاس تھوڑا بہت چلنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی میں یوں ہانپنے لگا جیسے میں کوئی بہت زیادہ جسمانی مشقت کا کام کر رہا ہوں۔ برف پر گزارے گئے تمام وقت میں اپنی کپکپاہٹ پر قابو نہیں پا سکا۔

ایک چیز جس کی مجھے خاص طور پر کوئی پریشانی نہیں تھی وہ برفانی ریچھ تھے۔ برف کا ٹکڑا جس پر میں سوار تھا سمندر میں تیر رہا تھا جبکہ قریب ہی برف کے چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی تھے۔ بنیادی طور پر یہاں حدِ نگاہ تک صرف پانی، پانی، اور ہوا تھی۔

مجھے صحافیوں کا پسندیدہ لفظ ’گرکرتباہ ہونا‘ بالکل پسند نہیں ہے

ہنگامی لینڈنگ کے چار گھنٹے بعد حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اور اپنے ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس لیتے ہوئے میں عارضی خیمے میں پیٹ کے بل لیٹا تھا کہ میں نے قریب ہی کسی کے زور زور سے سانس لینے، کسی کے چلنے اور برف کے کڑکڑانے کی آواز سُنی۔

میں نے جان بچانے والے تختے کے نچلے حصہ سے نکل کر باہر جھانکا اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک برفانی ریچھ ہے جو غُراتا ہوا میری سمت آ رہا ہے۔

مجھے فوری فیصلہ کرنا تھا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اُس سے پہلے وہ مجھے حیران کرے میں اُسے حیران کردوں گا۔اسی لیے میں نے اُوپر اچھلتے ہوئے وہ تختہ اُس کے اُوپر پھینک دیا۔ بُووو! پھر میں اُس ریچھ پر چڑھ دوڑا اور اس کے بازو کھینچتے ہوئے اُس پر دھاڑنے لگا۔

میں اپنا غیض وغضب اُس کو دکھانے کی کوشش کر رہا تھا اورحقیقت میں موجودہ صورتحال پیش آنے پر خود اپنے آپ اور اس ریچھ پر واقعی غصے میں تھا کہ ریچھ نے میرے برف کے ٹکڑے تک آنے تک کا راستہ کیوں کر نکالا۔ اُس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ یہاں آئے اور مجھے کھانے کی کوشش کرے!

یہ یقیناً بہت مضحکہ خیز صورتحال تھی جیسے آپ بچوں کے سامنے ایک دیو بننے کا ڈرامہ کر رہے ہوں۔ لیکن یہ کام کرگیا۔ ریچھ پلٹا اور دُور بھاگ گیا۔ میں نے سوچاکہ ’ٹھیک ہے، وہ سمجھ گیا ہے کہ میں باس ہوں مجھے اُس پر اپنا یہ تاثر قائم رکھنا ہے اس لیے میں نے اُس کا پیچھا کیا۔‘

پھر میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد سمندر مکمل تبدیل ہوگیا، ہوا سے ہر چیز ادھر اُدھر سرکنے لگی تھی

ہم برف کے ٹکڑے کے کنارے تک پہنچے تھے کہ اُس نے پُھرتی سے ایک دوسرے ٹکڑے پر چھلانگ لگا دی۔ میں نے ویسا کچھ نہیں کیا اور میں وہیں کنارے پر ہی کھڑا رہا۔ میرے بازو اب بھی تنے ہوئے تھے، میری آنکھیں غصے سےسُرخ انگارہ بنی ہوئی تھیں اور میں اُس پر مسلسل دھاڑ رہا تھا۔

پھر میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد سمندر مکمل تبدیل ہوگیا، ہوا سے ہر چیز ادھر اُدھر سرکنے لگی تھی اور جس برف کے ٹکڑے پر میں کھڑا تھا وہ مزید جما ہوا نہیں رہا تھا بلکہ ایک چھوٹا سا جزیرہ بن گیا تھا۔اور اب یہ میری حفاظت نہیں کرسکتا تھا۔ یقینی طور پر اب میں ریچھوں سے محفوظ نہیں تھا۔

ریچھ نے مزید 25 میٹر یا اس سے زیادہ فاصلہ طے کیا پھر وہ بیٹھ گیا اور ایک کُتے کی طرح مڑ کر خاموشی سے مجھے دیکھنے لگا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ میں اب کیا کرنے والا ہوں۔

میں نے خود سے سوال پوچھا تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں واپس نہیں مڑ سکتا اور نہ ہی زندگی بچانے والے تختے تک دبے پاؤں واپس جاسکتا ہوں۔ اس لیے میں وہیں کھڑا رہا اور اسی طرح ریچھ پر دھاڑتا رہا تاکہ اس پر یہ واضح ہو جائے کہ میرے جزیرے پر اُسے کسی صورت واپسی کا موقع نہیں ملے گا۔

ہم لوگ شاید پورا ایک منٹ وہیں رہے، وہ بیٹھ کر مجھے دیکھتا رہا اور میں کھڑا اُس پر دھاڑتا رہا۔ پھر ریچھ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اُس نے آہستہ آہستہ وہاں سے دُور چلنا شروع کر دیا۔ ہر پانچ سیکنڈ بعد وہ مڑ کر اپنے کندھے سے گردن گھُما کر میری جانب دیکھتا صرف یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ میں اب بھی وہیں موجود ہوں یا نہیں۔

اُس کے وہاں سے 100 میٹر یا کچھ زیادہ آگے جانے اور دُھند میں نصف مبہم سی شبیہہ باقی رہ جانے کے بعد میں نیچے بیٹھ گیا۔

میں سوچ رہاتھا ’او خدا! یہ ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔ کیا وہ واپس آئے گا؟ یقیناً وہ واپس آئے گا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہاں اُس کی خوراک ہے۔ وہ ایک بڑے دائرے میں جائےگا اور پھر وہ ہوا میں میری بُو سونگھتا ہوا دوبارہ واپس آئے گا۔‘

میں انہی سوچوں میں مبتلا وہیں بیٹھا نیلے بُھورے افق کو گھورتا رہا۔

اسی اثنا میں، میں نے اپنے سر کے اُوپر ایک طیارے کی آواز سُنی۔ وہ گہری دُھند کے باعث صاف نظر نہیں آرہا تھا لیکن اس کے باوجود میں نے اپنے پاس موجود شمعوں میں سے ایک کو پکڑ کراُوپر اُٹھایا۔ جو 30 سیکنڈ تک جلنے کے بعد بُجھ گئی۔ جہاز کی آواز لمحہ بہ لمحہ دُور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ یقینی طور پر جہاز کا پائلٹ مجھے دیکھ نہیں پایا تھا۔

nہم برف کے ٹکڑے کے کنارے تک پہنچے تھے کہ اُس نے پُھرتی سے ایک دوسرے ٹکڑے پر چھلانگ لگا دی

مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھے گہری دُھند سمیت دیگر بہت سے خطرات کا سامنا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ مجھے سخت سردی، پانی میں ڈوب جانے سمیت برفانی ریچھوں سے بھی خطرات لاحق تھے اور میرے زندہ بچ جانے کے امکانات انتہائی کم تھے۔

میں نے اپنی غذا اور پانی کو تین حصوں میں تقسیم کیا یعنی ہر دن کے لیے ایک پیک مختص کیا۔ میں یہ بالکل نہیں سوچ رہا تھا کہ اگلے ایک سے دو روز تک میرے اندر برفانی ریچھوں کا پیچھا کرنے کی بھی قوت رہے گی۔ لیکن میں اس بات پر مطمئن تھا کہ کم از کم میں نے اپنے خاندان کو اچھی طرح سیٹ کر دیا ہے۔ میرے بعد میری بیوی اور دو بچوں کو پیسے کے حوالے سے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

لیکن اگر میں زندہ بچ جاتا ہوں تو میرے پاس ریسکیو اور تحقیق کے لیے چند تجاویز ہیں۔ جیسا کہ:

گمشدہ ہوجانے والے زندہ افراد کی تلاش کے لیے جہاز کے بجائے ہیلی کاپٹر بھیجے جائیں۔اس دوران زندہ رکھنے کے لیے مخصوص لباس بنایا جائے جس کے ذریعے آپ اُڑ بھی سکیں۔اُن کپڑوں یا جان بچانے والے تختوں کے ساتھ رہنمائی کرنے والے چھوٹے ریڈیو بھی منسلک کیے جائیں۔

میں رات بھر نہیں سو پایا۔ میں نے اپنی آنکھیں بند ضرور کیں لیکن درحقیقت میں جاگ رہا تھا۔ میں نے خود کو نہ سونے کا حکم دیا تاکہ میں اپنی طرف بڑھتے ہوئے کسی بھی ریچھ کو فوراً دیکھ سکوں۔ حیران کُن طور پر میں صبح تک خود کو جگائے رکھنے میں کامیاب رہا۔

اور اس حادثے کے 36 گھنٹے کے بعد میں نے بالکل وہی چیز دیکھی جس کی شبیہہ میں کئی مرتبہ اپنے خیالوں میں تراش چکا تھا۔ جی ہاں ایک کینیڈین ریسکیو ہیلی کاپٹر میری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس سے پہلے ہی میں اپنے تختے پر اُچھلنے لگا اور اُن سے گلے ملنے کی کوشش کرنے لگا۔ اور وہ کہنے لگے ’ارے، ارے پُرسکون ہوجاؤ، پُرسکون ہوجاؤ۔ ہم جہاز کے ذریعے تم تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

وہ بہت حیران تھے کہ میری دماغی حالت تسلی بخش تھی، میں اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل تھا اور مجھے اس کے لیے کسی مدد کی ضرورت درکار نہیں تھی۔

مجھے اندازہ ہوا کہ اُن کا جہاز پیئر ریڈیسن 30 گھنٹے پہلے ہی ای کوولیٹ سے نکل چکا تھا اور اتنے گھنٹے تک وہ میری تلاش میں سرگرداں رہا۔ میں اس جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگا جہاں اُن کے اُس تیسرے ساتھی نے آخری چند لمحات میں میری مشعل کی ایک جھلک دیکھی تھی۔

جہاز پر سب بے انتہا خوش تھے کیوں کہ یہ بہت تجربہ کار اور اعلی صلاحیتوں کے ریسکیو اہلکار تھے۔ اور ایسا بہت کم ہوا تھا کہ اُنھوں نے میرے جیسی مشکل صورتحال میں بھی کسی کو زندہ پایا ہو۔ میں نیم گرم پانی سے نہایا جس کے بعد وہ مجھے افسران کے کھانے کے کمرے میں لے کر گئے اور وہاں مجھے ایک بڑی میز پر بٹھایاگیا۔

ہم لوگ شاید پورا ایک منٹ وہیں رہے، وہ بیٹھ کر مجھے دیکھتا رہا اور میں کھڑا اُس پر دھاڑتا رہا

اُس وقت رات کا نصف حصہ بیت چکا تھا لیکن مجھ پر جمی درجنوں آنکھیں مجھے تکے جارہی تھیں۔ انھوں نے زیتون کے تیل سے سجی سلاد کے ساتھ بے انتہا لذیذ سالمنّ مچھلی کی ایک پلیٹ پیش کی جسے باورچی نے انگاروں میں پکایا تھا۔

میں دنیا کے گرد اپنا سفر تو مکمل نہیں کر پایا لیکن میں نے یہ جانا کہ دنیا کس قدر چھوٹی ہے اور ہم سب لوگوں میں کس قدر مماثلت ہے چاہے اُن کا تعلق امریکہ سے تھا، کینیڈا یا پھر کہیں اور سب کا رویہ میرے ساتھ بہت دوستانہ تھا۔ میں اب خود کو صرف روس کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا شہری سمجھتا ہوں۔

ایک سوال جو مجھ سے ہر ایک پوچھتا ہے کہ ’کیا میں دوبارہ ایسا کروں گا؟‘ بہت آسان سی بات ہے کہ اگر میں دوبارہ کینیڈا کا سفر کرتا ہوں تو ایک لمحے کی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر میں ایک بار پھر ایسا کروں گا۔‘

خلا بازی کے آغاز سے اب تک کئی ریکارڈ، عالمی ریکارڈ، براعظمی ریکارڈ اور دیگر ریکارڈ بنتے رہے ہیں۔ مجھ سے پہلے صرف دو لوگوں نے دنیا کےگرد تنہا پرواز کی لیکن وہ بڑے ہیلی کاپٹرز میں مددگار ٹیم کے ہمراہ تھے۔ لیکن میں نے عملی طور پر50 میں سے 42 دنوں اور 38000 کلو میٹر میں سے 33000 کلو میٹر تک کا سفر طے کرکے اسے 85 فی صد ممکن کر دکھایا ہے۔

مجھے اب تک سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کس طرح اپنے دوست احباب اور اپنے پیاروں سے دوسری بار یہ سب کرنے کی اجازت طلب کروں۔ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میں اُن سے معافی مانگنی چاہیے کہ میں نے اُنھیں اتنی مشکل میں ڈالا، کیوں کہ وہ تو نہیں جانتے کہ اُن دو دنوں میں میرے ساتھ کیا کچھ پیش آیا تھا۔

لیکن دو زانو بیٹھ کر مجھے اُن سے بھیک مانگنی چاہیے کہ مجھے وہاں جانے دیں۔ بار بار جانے دیں۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو