دو انتہائیں! زازے خان

حقوق نسواں کے نام پر اسلام آباد میں موم بتی مافیا نے جس بیہودگی کا مظاہرہ کیا اس کی جس قدر مذمت کی جاۓ کم ہے- شرم واخلاق سے عاری جملوں پرمشتمل کتبے لیے یہ طبقہ جانے کیا ثابت کرنا چاہ رہا تھا- منافقت کی انتہا دیکھیں کہ مظاہرین میں اکثریت ان گھریلو ملازمین کی تھی جواس اشرافیہ کے ہاں تقریباً یرغمال ہے- ان کے ہاں پاکستانی عورت کے مسائل یہ ہیں کہ مرد پکانے اور برتن دھونے میں ہاتھ بٹاۓ، بچے کی نیپی تبدیل کرے- یعنی غیرسنجیدگی تو دیکھیں کہ کروڑوں بچیاں تعلیم سے محروم ہیں، وراثت میں حصہ نہیں ملتا، جہیز کی لعنتی وبا عام، روزگار میں یکساں مواقع کی کمی، اور پوری جانفشانی سے محنت کے باوجود مردوں سے تنخواہیں کم ملتی ہیں- ان حقیقی مسائل کو چھوڑ کر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مرد کپڑے خود استری کرے اور بازار سے سبزی لاۓ-

آۓ روز کمسن گھریلوملازماؤں پر تشدد کی خبریں آتی ہیں- اور آتی بھی اسی مافیا کے گھروں سے- ان مظالم پر کوئی مظاہرہ یا آواز نہیں اٹھتی- کبھی آپ نے سنا ہو کہ اس طبقہ نے ان سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا ہو کہ مخصوص سیٹوں پر اپنی قریبی رشتہ داروں کو اسمبلیوں میں بھیجنے کا کھلواڑ بند کریں- خواتین کو بھی جنرل نشستوں سے ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا ہو- نہیں! ہرگز نہیں! آپ ایسا سنیں گے بھی نہیں- وجہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور یہ حقوق نسواں کے نام پر کلنک اشرافیہ اندر سے ایک جیسے ہیں- ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں!

اب ایک اور طبقہ ہے جو معاملے کو موم بتی مافیا کا شغل قرار دیتا ہے- ان کی نظر میں پاکستان میں عورتوں کے کوئی مسائل ہی نہیں-چونکہ اسلام نے سارے حقوق بتا دئیے ہیں تو سب امن شانتی ہے- ادراک ہوتے ہوۓ بھی مسائل کو مذہبی ڈھال کے پیچھے چھپانا ایک اور انتہا ہے- دین میں دئیے گۓ حقوق سے کون انکاری ہے- یہاں ان حقوق کو نافذ کرنے کی بات ہو رہی ہے- جس پر ریاست بے سدھ اور معاشرہ چپ ہے-

ان دو انہتاؤں کے درمیان معتدل رستہ کیا ہے؟ کیا حقوق نسواں سے مراد آزادی نسواں ہے؟ کیا حقوق نسواں کی تحریک ایک جعلی دعوے دار طبقہ پر چھوڑ دینی چاہیے- ان سوالات کا تفصیلی جائزہ اپنے اگلی پوسٹ میں کروں گا-

Tags: ,