امریکا میں افغان سفیر کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرآئی اور امریکا کی پاکستان پالیسی میں سختی
واشنگٹن: امریکی تھنک ٹینک کی جانب سے منعقدہ ایک ملاقات کے دوران افغانستان کے سفیر نے پاکستان پر ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی مبینہ مدد کا الزام لگا دیا جبکہ پاکستانی سفیر نے افغانستان میں عدم استحکام کو افغانستان کے اندورنی مسائل کا سبب قرار دیا۔واشنگٹن میں موجود امریکی تھنک ٹینک ‘انڈس’ کی جانب سے کارنیجی اینڈومنٹ میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات، سفارتی اور سیکیورٹی کے مسائل پر بات چیت کے لیے ایک ملاقات منعقد کی گئی جس میں پاکستان اور افغانستان کے سفیروں نے شرکت کی۔
امریکا کے لیے پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان اپنے ملک میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام پاکستان پر نہیں لگا سکتا کیونکہ افغانستان میں جو حملے ہو رہے ہیں ان میں زیادہ تر کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہی ہوتی ہے۔
دوسری جانب امریکا کے لیے افغان سفیر حمد اللہ محب کا کہنا تھا کہ خطے میں صرف افغانستان ہی پاکستان پر الزام نہیں لگا رہا بلکہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھی اس پر اندرونی مداخلت کا الزام لگاتے ہیں جن میں ایران بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا ‘پاکستان پر صرف بحیرہ عرب کی مچھلیاں دہشت گردی کا الزام نہیں لگاتیں کیوںکہ مچھلیاں بول نہیں سکتیں’۔
پاکستانی سفیر نے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اور چار فریقی امن عمل کی ضرورت پر زور دیا اور افغان تنازع کے حل کے لیے سیاسی کوششیں کرنے کی خواہش ظاہر کی جبکہ دوسری جانب افغان سفیر مصالحت کے لیے تیار نہیں تھے۔
افغان سفیر نے ملاقات کے دوران نہ صرف پاکستان پر افغانستان میں پریشانی پیدا کرنے کا مبینہ الزام لگایا بلکہ امریکا اور چین پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو ہتھیار فراہم نہ کریں، انہوں نے ان ممالک کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک دن یہ ہتھیار آپ کے ہی خلاف استعمال ہوں گے’۔
امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں نے افغان سفیر کے موقف کی مزید تائید کی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیے اپنی پالیسی کو سخت کرنے پر غور کر رہا ہے اور پاکستان پر زور دے گا کہ وہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں دہشت گردوں کے مبینہ خفیہ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے جہاں سے دہشت گرد افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر مک ماسٹر نے پاکستانی حکام سے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے اغوا کیے گئے امریکیوں کو قتل کر دیا گیا تو امریکا پاکستان میں ان کے ٹھکانوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
ان رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیے پالیسی پر مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے جن میں ڈرون حملوں میں تیزی، پاکستان کی فوجی امداد میں کمی اور پاکستان کی غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنا شامل ہے جبکہ دوسری جانب امریکی انتظامیہ کے کچھ عناصر پاکستان کے خلاف ان سخت ترین اقدامات کے مخالف بھی ہیں۔
ان عناصر کا کہنا ہے کہ امریکا کے بھارت کےساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے پاکستان ویسے ہی امریکا سے دور ہورہا ہے اور اگر ایسے وقت میں سخت اقدامات کیے گئے تو اسلام آباد پر واشنگٹن کا اثر ختم ہو جائے گا۔
افغان سفیر نے ان رپورٹس کے تناظر میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنا جاری رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال کابل میں ہونے والے بم دھماکے میں فوجی ساختہ دھماکا خیز مواد کا استعمال کیا گیا جس میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور ایسا مواد افغانستان کے غیر سرکاری علاقے میں تیار نہیں ہو سکتا۔
افغان سفیر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مختلف حقیقی مسائل ہیں۔
اانہوں نے ملاقات کے دوران امریکی تھنک ٹینک سے سوال کیا کہ افغانستان، پاکستان کے ساتھ ضرور کام کرے گا، لیکن کونسے پاکستان کے ساتھ جو فوج کے زیر اثر ہو یا سول حکومت کے زیر اثر۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں پالیسی فوج تیار کرتی ہے، ہم آج کی فوج کی بات کر رہے ہیں جو لبرل مائنڈ سیٹ کی مالک ہے انتہا پسندی کو اپنی خاجہ پالیسی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی نسل ضیا کے دعوہ کے اداروں سے تربیت یافتہ ہے اور افغانستان کو اس نئی نسل کے حوالے سے خدشات ہیں۔
پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے امریکی تھنک ٹینک کے سامنے بہت محتاط انداز میں اپنے ملک کا دفاع کیا اور پاکستان کی افغانستان کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘ تاریخ گواہ ہے جب بھی افغانستان غیر مستحکم ہوا، پاکستان بھی عدم استحکام کا شکار آیا’۔
امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے امریکی تھنک ٹینک کو واضح پیغام دیا کہ ‘ایک مستحکم اور ترقی یافتہ افغانستان میں پاکستان کے حقیقی مفاد ہے’۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور پاکستان افغانستان میں عدم استحکام لا کر اپنی معیشت کو دوبارہ خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
انہوں نے بتایا کہ تورا بورا کی بمباری کے بعد دہشت گردوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کیا جنہیں پاک فوج نے مختلف آپریشن کر کے اور 6 ہزار جانیں قربان کر کے وہاں سے نکالا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں امن بحال ہو چکا ہے اور معشت ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے اور یہ تمام معاملات افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے اشارہ دیا کہ افغان حکومت کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے اور دہشت گرد ان علاقوں کو استعمال کر کے دہشت گرد کارروائیاں کر رہے ہیں جن میں داعش بھی شامل ہے جو پاکستان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم (پاکستان) افغانستان میں امن بحال کرنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں’۔
افغان سفیر نے کہا کہ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے اور اسی طرح افغانستان کی معیشت بھی بہتر ہورہی ہے۔
تاہم انہوں نے پاکستان پر عالمی ہیروئن اسمگلنگ کا مبینہ الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہیروئن اسمگلنگ میں پاکستان کا ایک چوتھائی حصہ ہے اس کے علاوہ پاکستان مبینہ طور پر انسانی اسمگلنگ میں بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو عناصر افغانستان پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ہم ان کے نشانے پر ہیں اور ایسے عناصر کے حوالے سے بات چیت تب تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک افغانستان کو اس بات چیت میں شامل نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان جانتا ہے کہ اس کے اہداف کیا ہیں لیکن پاکستان کے کیا اہداف ہیں ان کے بارے میں افغانستان نہیں جانتا۔
افغان سفیر نے صدر اشرف غنی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں سیاسی مفاہمت کے لیے کافی کوششیں کیں لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ غیر اعلانیہ جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔
پاکستانی سفیر نے افغان سفیر کے اس الزام کے جواب میں کہا کہ ‘ یہ کچھ نیا نہیں ہے بلکہ یہ جملہ پاکستان پچھلے کچھ سالوں سے سنتا آرہا ہے لیکن پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ الزام تراشی میں کبھی بھی شامل نہیں ہوگا کیونکہ اس سے کسی بھی ملک کو فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے افغان سفیر کو کہا کہ پاکستان پر الزام لگانا نہایت ہی آسان کام ہے لیکن الزام لگانے والا اپنے ہی مسائل بھول جاتا ہے جس میں کمزور حکومت، کرپشن، منشیات کی تجارت اور معاشی دباؤ شامل ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ پاک-افغان سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تو کیا اس سے افغان مسائل حل ہوجائیں گے؟
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں دوستانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے جیسا کہ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے بہترین دوستی کا مظاہرہ کیا گیا۔
انہوں نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کی کوششوں کے تبادلے کے لیے ایک نظام تیار کیا جائے۔
Tags: afghan, afghanistan, aizaz chaudry, foreign office, Pakistan, terror, war on terror