ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کی حمایت

اسلام آباد ۔ 11 جنوری (اے پی پی) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے طلبہ یونین کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی ضروری ہے‘ آئین میں بھی یونین سازی کا حق دیا گیا ہے جو فوجی ڈکٹیٹر نے سلب کرلیا‘ طلبہ یونین سے ملک کو کرپشن سے پاک منجھی ہوئی سیاسی قیادت ملی۔ پیر کو ایوان بالا میں سینیٹر روبینہ خالد اور سینیٹر حاصل بزنجو نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان ملک کے تعلیمی اداروں بالخصوص کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کی بحالی کی ضرورت پر بحث کرے۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے مشاہد حسین سید‘ سینیٹر (ر) عبدالقیوم‘ نسرین جلیل نے کہا کہ بعض تعلیمی اداروں میں یونین کام کر رہی ہیں بعض میں پابندی ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیاست نہیں ہونی چاہیے بلکہ طالب علموں کو اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ طالب علموں کو سیاسی آزادی ملنی چاہیے۔ سعید غنی نے کہا کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے یونٹ کام کر رہے ہیں۔ طلباء تنظیموں پر پابندی ہٹائی جائے کیونکہ طلبہ تنظیموں کے فعال ہونے سے سیاسی طور پر تربیت یافتہ نوجوان آگے آئیں گے۔ ٹریڈ یونینز پر غیر اعلانیہ پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ سٹوڈنٹ یونین سے طلباء کے منتخب نمائندوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ وہ طالب علموں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔ زیادہ تر سیاستدان طالب علم تحریکوں سے پیدا ہوتے ہوئے۔ آمرانہ دور حکومت میں ہمیشہ طالب علموں نے جمہوریت کے لئے آواز بلند کی۔ ہمیں طالب علموں کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ جمہوری دور میں انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ طلباء تنظیموں کو فوری بحال کیا جائے۔ احمد حسن نے کہا کہ ہم طلباء تنظیموں کی بحالی کے حامی ہیں۔ طاہر مشہدی نے کہا کہ یونین سازی سب کا بنیادی اور آئینی حق ہے۔ طالب علموں میں صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے طلبہ تنظیموں کی بحالی ضروری ہے۔ طلبہ نے ملک میں تمام سیاسی جماعتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے تاہم ان طلبہ تنظیموں کے لئے قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ طلبہ تنظیمیں سیاسی نرسریاں ہیں۔ کچھ خامیوں کے باوجود ان تنظیموں کی بہت زیادہ افادیت ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی ضروری ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ طلبہ تنظیمیں نوجوانوں کو سیاسی تربیت فراہم کرتی ہیں۔ مشاہد اللہ نے کہا کہ طلباء تنظیمیں آمریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ کرپشن کی بڑی وجہ طلبہ تنظیموں کا نہ ہونا ہے۔ طالب علم اپنی لیڈری قائم کرنے کیلئے غلط کاموں سے بچتے ہیں۔ طلبہ تنظیموں کے ذریعے سیاست میں آنے والے رہنما آج بھی سماجی برائیوں سے کافی حد تک دور ہیں۔ ماضیم یں کالجوں میں اسلحہ کی نمائش نہیں ہوتی تھی۔ طالبعلم تنظیمیں کالجوں میں تقریری مقابلے اور کھیلوں کے مقابلے کراتی تھیں لیکن آج کل ایسا نہیں ہو رہا۔ طلبہ تنظیموں اور سرکاری اداروں میں ٹریڈ یونین پر غیر اعلانیہ پانبدی ہے۔ جو ان کو بنیادی حق سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ طلباء یونین ٹریڈ یونین اور بارز کو اکٹھا کریں تو سول سوسائٹی تشکیل پاتی ہے۔نوجوانوں میں سیاست کرنے والے نہیں بھاگتے انہیں پتہ ہے کہ میں لوگوں کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ماضی میں طلباء تنظیموں کے رہنماؤں کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ یہ پڑھا لکھا گروہ عوام کے مسائل کو سمجھتا ہے کرپشن سے دور ہے اسے ختم کردیا گیا ہے۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ طلباء تنظیموں سے نوجوانوں کو سیاسی پلیٹ فارم ملتا ہے۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی سے اظہار رائے کی آزادی پر فرق آرہا ہے۔ کالجوں‘ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کردار سازی ہوتی تھی غیر نصابی سرگرمیاں منعقد کی جاتی تھیں۔ بڑے بڑے سیاستدان طلبہ تنظیموں کی نرسریوں سے آگے آئے ہیں۔جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ مختار عاجز دھامرہ طلبہ تنظیموں پر پابندی لگانے کی مذمت کرتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں سے صنعتی قیادت پیدا ہوگی۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی ہٹائی جائے۔ شاہی سید نے کہا کہ طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں کی بحالی کے معاملے کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یونین تنظیموں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ آمریت کے دور میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی گئی۔ طالب علموں نے آمرانہ حکومتوں کے خلاف جدوجہد کی۔ طلبہ تنظیموں سے منجھے ہوئے سیاستدان پیدا ہوتے ہیں۔ مدارس میں بھی یونین سازی کی اجازت ہونی چاہیے۔ ضابطہ اخلاق بنا کر طلبہ یونین کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

Tags: , , , , ,