عمران فاروق قتل: ملزم کی ممکنہ حوالگی عدالت میں چیلنج

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے ایک اہم ملزم خالد شمیم کی اہلیہ نے سندھ ہائی کورٹ کے سامنے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں اپنے شوہر کی جان خطرے میں محسوس ہوتی ہے۔

حال ہی میں کوئٹہ کے نزدیک چمن سے خالد شمیم کی گرفتاری ظاہرکی گئی تھی۔ ان کی اہلیہ کو خدشہ ہے کہ خالد کو تفتیش کے لیے ملک سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔

2011ء سے لاپتہ خالد شمیم کو فرنٹیئر کور کے مطابق ایک اور ملزم محسن علی کے ساتھ پاک افغان سرحد کے قریب چمن میں چار دن قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

درخواست گزار بینا خالد نے اپنے شوہر تفتیش کے لیے ممکنہ طور پر خالد شمیم کی ملک سے باہر منتقلی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

جسٹس صادق حسین کی سربراہی میں ایک ڈویژن بینچ نے فیڈرل لاء آفیسر کو ہدایت کی کہ وہ وزارتِ داخلہ سمیت جوابدہ حکام کے تبصرے 2 جولائی تک یقینی طور پر جمع کرائیں، اس روز اس مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوگی۔

بینا خالد نے عدالت کو بتایا کہ ان کا شوہر 2011ء سے لاپتہ ہے اور اب حکام نے اس کی گرفتاری چمن سے ظاہر کی ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ وفاقی حکام کو ہدایت کرے کہ ان کے خاوند کو پوچھ گچھ کے لیے برطانیہ منتقل نہ کیا جائے۔

بینا خالد نے اس سے قبل اپنے شوہر کی مبینہ حراست کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن دائر کی تھی۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر اور اپنے پانچ سالہ بیٹے کے ہمراہ کار میں جارہی تھیں کہ ملیرہالٹ پر ایک اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے لیے اترے تو ان کے شوہر کو اُٹھالیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم ہیں۔

بینا خالد نے بتایا کہ دو گاڑیوں میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار وہاں پہنچے اور ان کے شوہر کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کی گاڑیوں پر سرکاری نمبر پلیٹ نصب تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مدد کے لیے لوگوں کو پکارا، لیکن ان کے شوہر کو بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا، جبکہ پولیس اور رینجرز اہلکار اس علاقے میں گشت کررہے تھے۔

انہوں نے اپنے شوہر کی گرفتاری کے لیے سیکریٹری داخلہ، ہوم سیکریٹری، ڈی جی رینجرز، سٹی پولیس کے سربراہ اور دیگر کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

تاہم قانون نافذ کرنے والے وفاقی و صوبائی اداروں نے خالد شمیم کی گرفتاری یا حراست میں رکھنے کے الزام کو مسترد کردیا ہے، جبکہ اس کیس میں تفتیش کرنے والے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ خالد شمیم کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوششیں کی جارہی ہیں، اور اس سلسلے میں ایک جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی تھی، جو اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔

عدالت کے حکم پر پیش کی گئی پولیس کی ریکارڈ کردہ رپورٹ کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا اور وہ ماڈل کالونی پولیس اسٹیشن میں درج قتل کے ایک مقدمے میں ملوث تھا۔

اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ خالد شمیم نے پچھلے چند سالوں کے دوران بیرون ملک متعدد سفر کیے تھے، اور تفتیشی افسر نے اس لاپتہ فرد کی سفری ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے سری لنکا ایئرلائن کو ایک خط بھی تحریر کیا تھا۔تاہم اس ایئرلائن کے جواب کا انتظار ہے۔

اس سے قبل ایک صوبائی لاء آفیسر کی جمع کرائی گئی رپوٹ میں کہا گیا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ لاپتہ فرد روپوش ہوگیا ہے یا فوجداری مقدمے میں پکڑ سے بچنے کے لیے بیرون ملک فرار ہوگیا ہے۔