خدا تک پہنچنے کا راستہ

جلیل بیگ 1990ء میں لندن میں تھے،یہ برطانیہ میں سیٹل ہو چکے تھے،زندگی مطمئن اور خوبصورت تھی،یہ مشینوں کے پارٹس پاکستان بھجواتے تھے،پیسہ کماتے تھے،فالتو وقت میں مصوری کرتے تھے،جنگلوں میں نکل جاتے تھے اور جھیلوں کے کنار بیٹھ جاتے تھے،زندگی میں رنگ ہی رنگ،خوشیاں ہی خوشیاں تھیں،لیکن پھر ان کی لائف کا پورا ٹریک بدل گیا،ان کے کان میں کائی نیٹکس کا مسئلہ پیدا ہو گیا،کائی نیٹکس کی بیماری میں انسان کے کانوں میں ہر وقت سائیں سائیں کی آوازیں آتی رہتی ہیں،یہ آوازیں انسان کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں،یہ سو سکتا ہے اور نہ ہی چل پھر سکتا ہے۔

آپ خود اندازہ لگائیے اگر آپ کے کان ہر وقت بجنے لگیں تو آپ کی کیا حالت ہو گی،جلیل بیگ کی زندگی بھی زندگی نہیں تھی،عذاب بن چکی تھی،وہ ڈاکٹروں کے پاس گئے،ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا،بیگ صاحب کی حالت اتنی خراب تھی کہ انھوں نے فوراً ہاں کر دی،آپریشن ہوا لیکن آپریشن کے دوران دماغ کی ایک حساس نس کٹ گئی،جلیل بیگ صاحب کا پورا جسم مفلوج ہو گیا،یہ اب بول سکتے تھے اور نہ ہی چل پھر سکتے تھے،یہ یکسوئی کی نعمت سے بھی محروم ہو چکے تھے۔

ان کے دماغ کے گنبد میں ہر وقت آوازیں گونجتی رہتی تھیں،یہ نارمل انسان سے سبزی بن گئے،ڈاکٹروں کا کہنا تھا،یہ مسلسل علاج سے چھ سال میں معمولی حد تک نارمل ہو سکیں گے،یہ ایک افسوسناک صورتحال تھی،اس افسوسناک صورتحال میں ان کے ایک ترک دوست مصطفی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا،یہ شیفیلڈ کے علاقے میں ایک لیئر سینٹر میں کام کرتا تھا،لیئر سینٹر ایک ایسا اسپورٹس کمپلیکس ہوتا ہے جس میں جمنازیم،گیمز،سوئمنگ پول اور سینما ہوتے ہیں۔

مصطفی روز بیگ صاحب کو ویل چیئر پر بٹھا کر لیئر سینٹر لے جاتا،یہ وہاں سارا دن کافی شاپ میں گزار دیتے،مصطفی شام کے وقت ان کی چیئر دھکیل کر انھیں واپس لے جاتا،یہ معمول کئی ہفتوں تک جاری رہا،بیگ صاحب ایک دن کافی شاپ میں بیٹھے تھے،انھوں نے سامنے دیکھا،کوئی صاحب ہال میں نوجوانوں کو جمناسٹک کرا رہے ہیں،بیگ صاحب اس ٹرینر کو دیکھتے رہے،ٹرینر نے کلاس ختم کی اور وہ بھی اس کافی شاپ میں آ کر بیٹھ گیا،تھوڑی دیر بعد مصطفی آیا اور بیگ صاحب سے اشارے میں کافی کا پوچھا،وہ ٹرینر دونوں کو غور سے دیکھ رہا تھا،اس نے مصطفی کو بلایا اور بیگ صاحب کی معذوری کی وجہ پوچھی،مصطفی نے اسے ساری کہانی سنا دی،ٹرینر اٹھا،بیگ صاحب کے قریب پہنچا اور ان سے ان کے معائنے کی اجازت مانگی،بیگ صاحب اسے خالی نظروں سے دیکھتے رہے۔

ٹرینر نے اپنی دونوں چھوٹی انگلیاں ان کے کانوں میں گھسائیں،آہستہ آہستہ آگے بڑھائیں،انگلیاں جب کان کے آخری سروں تک پہنچ گئیں تو اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ دونوں انگلیاں باہر نکالیں،جلیل بیگ کو غش آیا اور یہ بے ہوش ہو گئے،ٹرینر نے ان کی گردن سہلائی اور یہ چند سیکنڈ میں ہوش میں آ گئے،ٹرینر مسکرایا اور بیگ صاحب کو غور سے دیکھ کر بولا ’’میں آپ کو چھ ہفتوں میں نارمل کر سکتا ہوں،میں بیس پاؤنڈ فی گھنٹہ لوں گا،آپ دو ہفتوں میں پاؤں پر کھڑے ہوں گے اور چھے ہفتے میں نارمل انسانوں کی طرح بھاگ دوڑ رہے ہوں گے‘‘بیگ صاحب کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتے تھے لیکن مصطفی ڈٹ گیا،اس نے ٹرینر کو اپنی جیب سے پے منٹ کرنے کا اعلان کیا اور اسے علاج شروع کرنے کی ہدایت دے دی۔

وہ ٹرینر جرمن تھا،اس کا نام نارمن موشے تھے،وہ کنٹریکٹ پر دنیا کے مختلف ملکوں میں ٹریننگ کراتا تھا،وہ لندن میں چند ماہ کے لیے آیا تھا،عمر 92 سال تھی لیکن وہ دیکھنے میں چالیس سال سے زیادہ نہیں لگتا تھا،پانچ شادیاں کر چکا تھا،بارہ تیرہ بچے تھے،آخری بیوی انتہائی خوبصورت اور جوان تھی،نارمن نے بیگ صاحب کا علاج شروع کر دیا،وہ انھیں ایکسرسائز کراتا،ان کی فزیو تھراپی کرتا،انھیں یوگا کے آسن سکھاتا اور ان کو جمناسٹک پر مجبور کرتا،یہ مشقیں چند دن جاری رہیں یہاں تک کہ معجزہ ہو گیا،جلیل بیگ واقعی اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے،یہ دو ہفتوں میں چلنے بھی لگے۔

یہ حیران کن تبدیلی تھی،یہ تبدیلی جاری رہی،بیگ صاحب صحت مند ہوتے چلے گئے،ان کے کان بھی ٹھیک ہو گئے،یہ بولنے بھی لگے اور یہ ہاتھ اور پاؤں بھی چلانے لگے،بیگ صاحب چھٹے ہفتے 90 فیصد تندرست ہو گئے،نارمن انھیں جم میں لے گیا،ان کی گردن میں پٹا ڈالا،وزن باندھا اور انھیں یہ وزن اٹھانے کا حکم دیا،بیگ صاحب آسانی سے وزن اٹھا گئے،نارمن اس کے بعد وزن بڑھاتا گیا اور بیگ صاحب وہ وزن اٹھاتے گئے،نارمن مطمئن ہو گیا،وہ انھیں لے کر ٹینس کورٹ میں چلا گیا،کورٹ میں دو ڈسٹ بن تھیں،نارمن نے پہلے انھیں ان دونوں ڈسٹ بینوں کے درمیان دوڑایا،بیگ صاحب یہ مرحلہ آسانی کے ساتھ عبور کر گئے۔

نارمن نے اس کے بعد انھیں پوری طاقت کے ساتھ بھاگنے کا حکم دیا،اس کا کہنا تھا ’’بیگی تم ہارے ہوئے اس سپاہی کی طرح بھاگو جس کے پیچھے خون خوار کتے لگے ہیں اور وہ اگر ایک لمحے کے لیے بھی رک گیا تو اسے کتے چیر پھاڑ دیں گے‘‘بیگ صاحب بڑی مشکل سے صحت مند ہوئے تھے،وہ دوبارہ معذور نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن نارمن نے انھیں دوڑنے پر مجبور کر دیا،وہ دوڑے اور واقعی ہارے ہوئے سپاہی کی طرح دوڑے،بیگ صاحب کا خیال تھا،وہ بھاگتے ہوئے گر جائیں گے لیکن کمال ہو گیا،وہ بغیر گرے کورٹ کے آخری سرے تک پہنچ گئے۔

انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنے محسن سے لپٹ کر رونے لگے،نارمن نے انھیں تسلی دی،ان کے ساتھ ہاتھ ملایا اور کہا ’’بیگی اٹھو،تم اب بالکل نارمل انسان ہو،اپنے ملک جاؤ اور نارمل انسانوں جیسی زندگی گزارو‘‘یہ علاج نہیں تھا،یہ معجزہ تھا،جلیل بیگ بھی اس معجزے پر حیران تھے اور ڈاکٹر بھی۔ یہ صرف اور صرف ایکسرسائز کا کمال تھا،ایکسرسائز نے ایک معذور شخص کو دواء اور آپریشن کے بغیر قدموں پر بھی کھڑا کر دیا اور نارمل بھی بنا دیا،اس واقعے نے بیگ صاحب کی کایا پلٹ دی،پرانا جلیل بیگ فوت ہو گیا اور نئے جلیل بیگ نے جنم لے لیا۔

جلیل بیگ،نئے جلیل بیگ نے یونیورسٹی میں ’’فزیکل ہیلتھ‘‘میں داخلہ لے لیا اور وہ باقاعدہ ایکسرسائز سیکھنے لگے،نارمن موشے جرمنی واپس چلا گیا،اسے جلیل بیگ کے شوق کا علم ہوا تو اس نے انھیں اپنی شاگردی میں لے لیا،نارمن فرینکفرٹ کے قریب چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا،بیگ صاحب اکثر اس کے پاس چلے جاتے تھے،وہ انھیں مختلف ایکسرسائز سکھاتا تھا،نارمن ایسی ہزار ایکسرسائز جانتا تھا جن کے ذریعے مختلف بیماریوں کا علاج ممکن تھا،وہ یوگا اور مراقبے کا ماہر بھی تھا،بیگ صاحب نارمن کے مرنے تک اس کے شاگرد رہے۔

نارمن کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح حیران کن تھی،وہ ایک سو دو سال کا تھا،وہ اپنے ہیلتھ سینٹر میں آلتی پالتی مار کر مراقبے میں گیا،وہ جب دیر تک مراقبے سے باہر نہ آیا تو اس کی بیوی نے اسے ہلایا،وہ فرش پر گر گیا،وہ مراقبے کے عالم میں ہی فوت ہو چکا تھا،جلیل بیگ صاحب نے نارمن کے مرنے کے بعد اپنا سامان سمیٹا اور پاکستان آ گئے،یہ اب لاہور میں رہتے ہیں،اپرمال اسکیم میں ان کا گھر ہے،گزارے کے لیے ایک چھوٹی سی کمپنی چلاتے ہیں،صبح پانچ بجے ریس کورس پارک چلے جاتے ہیں،ریس کورس کی جھیل کے قریب اس وقت تک ڈیڑھ سو لوگ جمع ہو چکے ہوتے ہیں،یہ ان لوگوں کو ایکسرسائز کراتے ہیں،ان کا دعویٰ ہے،یہ ایکسرسائز کے ذریعے ہر مرض کا علاج کر سکتے ہیں۔

لوگ شوگر،بلڈ پریشر،ہارٹ،ٹینشن،اینگزائٹی،اعصاب،کولیسٹرول اور مرگی جیسے امراض لے کر آتے ہیں،یہ انھیں ایکسرسائز اور مراقبہ سکھاتے ہیں اور وہ مریض چند ہفتوں میں صحت یاب ہو کر گھر چلے جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک صحت مند رہتے ہیں جب تک یہ ایکسرسائز کرتے ہیں،جلیل بیگ پچھلے سولہ برسوں سے لوگوں کی مد کر رہے ہیں،یہ ہزاروں انسانوں کی زندگی بدل چکے ہیں۔

لوگوں کی زندگیاں بدلنا ان کا جنون بھی ہے اور عبادت بھی۔ یہ ہر وقت اس جنونی عبادت میں مصروف رہتے ہیں،سیلف لیس انسان ہیں،اپنی خدمات کا دعا کے سوا کوئی معاوضہ نہیں لیتے،سیکڑوں لوگ ان کے مرید ہیں،ان مریدین میں دانشور بھی شامل ہیں،بیوروکریٹ بھی اور بزنس مین بھی۔ آپ بھی اگر ان سے ملنا چاہیں تو آپ کسی صبح ریس کورس پارک میں چلے جائیں،یہ آپ کو جھیل کے کنارے اپنے مریدوں کو ایکسرسائز کراتے مل جائیں گے۔

ہم انسان دنیا میں آنے سے قبل جنت میں تھے،ہمیں وہاں تین نعمتیں حاصل تھیں،ہم اللہ کے قرب کی وجہ سے وہاں پرسکون تھے،جنت میں دکھ نہیں تھے لہٰذا ہم وہاں خوش بھی تھے اور وہاں کیونکہ مصائب،آزار اور آلام بھی نہیں تھے چنانچہ ہم وہاں کمفرٹیبل بھی تھے،ہم انسان پوری زندگی دنیا میں خوشی،سکون اور کمفرٹس تین چیزیں تلاش کرتے رہتے ہیں،یہ تلاش ہمیں اکثر اوقات بھٹکا بھی دیتی ہے،تھکا بھی دیتی ہے اور بیمار بھی کر دیتی ہے۔

دنیا کی تمام بیماریاں ذہن سے شروع ہوتی ہیں،اگر آپ کا ذہن بیمار ہے تو پھر آپ کا جسم صحت مند نہیں رہ سکتا اور نارمن موشے اور جلیل بیگ جیسے لوگ آپ کے ذہن کو صحت مند بناتے ہیں،یہ صحت دماغ سے روح اور جسم میں جاتی ہے اور یوں آپ توانائی سے بھرپور انسان بن جاتے ہیں،میں طویل جدوجہد کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں،آپ اگر اپنے آپ کو اہمیت نہیں دیتے تو آپ دنیا کی کسی چیز کو اہمیت نہیں دے سکتے،آپ اگر اپنی عزت نہیں کرتے،آپ اگر خود سے محبت نہیں کرتے اور آپ اگر اپنے آپ کو تبدیل نہیں کر سکتے تو پھر آپ دنیا کی کسی چیز کو بدل سکتے ہیں۔

آپ کسی سے محبت کر سکتے ہیں اور نہ آپ کسی کو عزت دے سکتے ہیں،انسان کا پہلا اور مضبوط ترین رشتے دار اس کا اپنا وجود ہوتا ہے،انسان اگر یہ رشتہ نہیں نبھاتا تو پھر یہ کوئی رشتہ،کوئی بندھن نہیں نبھا سکتا حتیٰ کہ یہ اللہ کا اچھا اور نیک بندہ بھی نہیں بن سکتا،انسان کی خودی اس کا خود ہے اور ہمارا خدا ہمارے اس خود میں چھپا ہوتا ہے،نارمن اور جلیل بیگ اپنی خودی میں چھپے خدا تک پہنچ گئے،آپ بھی پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ بھی اپنے آپ سے اسٹارٹ لیں،خدا کو خود میں تلاش کریں،یہ آپ کو چند ماہ میں مل جائے گا۔