فرعون کا سکون

گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات کا ذکر چند الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہر مصیبت اور ہر مسئلہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ سانحہ ٔ پیرس سے لے کر شام میں بمباری تک، داعش کے خلاف کارروائی سے لے کر ترک حدود میں روسی طیارے کی ”ہلاکت‘‘ تک وارداتوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے کہ جس سے کئی وارداتیں جڑی ہوئی ہیں۔ آج مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اور وہاں پیدا ہونے والے نفسیاتی مریض جس طرح دُنیا کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں، اسے اسلام سے کوئی واسطہ ہے نہ قرآن سے کوئی تعلق۔ یہ تو اُس گینگ ریپ (Gang Rape) کے نتیجے میں ہونے والی وارداتیں ہیں‘ امریکہ، برطانیہ اور ان کے گماشتوں نے جس کا مسلسل ارتکاب کیا ہے۔ عراق کو جس طرح تاراج کیا گیا، لبیا کا سکون جس طرح چھینا گیا، مصر میں جس طرح جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا گیا، اور شام کی بربادی اور تباہی کی جو کوشش کی گئی، اُس نے لاکھوں افراد کی جانیں لی ہیں۔ صرف عراق میں مارے جانے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
شام کی کم و بیش نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہے، چالیس لاکھ سے زیادہ شامی تو اقوام متحدہ کی رجسٹریشن کے مطابق مہاجر ہو چکے ہیں، اور پناہ کی تلاش میں مُلکوں مُلکوں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ساٹھ لاکھ سے زیادہ اپنے وطن میں بے وطن ہیں۔ گھربار چھوڑ کر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ سکول بند ہو چکے ہیں، بستیاں مسمار ہو چکیں، کاروبار تباہ ہو چکے۔ اسی سب کچھ کی کوکھ سے داعش نے جنم لیا ہے، اُس کے متعلقین کا جذبۂ انتقام پوری دُنیا کو زد میں لیے ہوئے ہے۔
مغربی سیاست دان اور تجزیہ نگار بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کی اپنی کارستانیاں ان کے سامنے آ رہی ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے‘ جنہیں امریکی صدر جارج بش کے ”پوڈل‘‘ (پالتو کتے) کے طور پر جانا جاتا ہے، عراق پر لشکر کشی کی معافی طلب کی ہے۔ اس سے پہلے سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ عراق میں جن کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں ان کے فوجی پہنچے تھے، ان کا کبھی سراغ نہیں ملا، ان کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ صدام حسین کو اقتدار سے الگ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ اگر نظم اجتماعی برقرار رہتا اور صرف اقتدار پر قابض افراد نشانہ ہوتے تو بھی وہ قیامت نازل نہ ہوتی جو اب دُنیا بھر کو خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔ عراق پر حملہ کر کے اُس کا پورا ریاستی ڈھانچہ زمین بوس کیا گیا، فوج تِتر بتر کی گئی، اور یوں بدنظمی کی ایسی آگ لگائی گئی، جو بجھنے میں نہیں آ رہی، مختلف گروہوں کو اس طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں کیا گیا کہ گریبان کی شناخت ممکن رہی ہے‘ نہ ہاتھ کی۔
لبیا میں کرنل قذافی کے خلاف یوں کارروائی کی گئی کہ وہاں کے ہنستے بستے لوگ ویران و حیران ہیں۔ شام کے مسئلے کو بھی طاقت کے بَل پر حل کرنے کے لیے اپنی پیٹھ ٹھونکی گئی۔ صدر بشارالاسد کا اندازِ حکومت مثالی نہیں تھا، ان سے آبادی کے بڑے حصے کو شدید شکایات تھیں، ان کے ہمسایہ ممالک بھی ان سے بیزار تھے، لیکن صدام حسین کے تجربے کو شام میں دہرانے کی کوشش کو احمقانہ سے بھی کچھ زیادہ ہی کہا جائے گا۔ یہ الزام لگانے والے موجود ہیں کہ بشارالاسد کے خلاف کارروائی کے پیچھے اسرائیلی سازش کارفرما تھی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام نے اپنے ترک دوستوں کو خبردار کیا تھا کہ شام کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں، وگرنہ یہ ان کا افغانستان بن جائے گا۔ افغانستان میںگزشتہ تین ساڑھے تین عشروں سے جو کچھ ہو رہا ہے، اُس نے پاکستان کی زندگی تو اجیرن کر ہی رکھی ہے، خود اُس کا اپنا سکون بھی برباد ہے۔ افغانستان کے لاکھوں باشندے اب تک پاکستان میں موجود ہیں، بہت سے دُنیا کے مختلف مُلکوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ سوویت فوجوں کی مداخلت سے جو اجتماعی نظم ٹوٹا تھا، وہ بحال نہیں ہو پایا۔ پاکستان اور دُنیا بھر کے آزادی پسند ممالک نے سوویت قبضے کے خلاف افغان مجاہدین کی امداد کر کے جو بھی نیکی کی ہو، وہاں کے ریاستی ڈھانچے کو تسلیم نہ کر کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ شام میں بشارالاسد سخت جان ثابت ہوئے ہیں، نہ ان کا صدام حسین بنایا جا سکا ہے، اور نہ ہی اُنہیں افغان حکمرانوں کی طرح بے دخل کیا جا سکا ہے، انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی جڑیں مضبوط ہیں، فوج ابھی تک موجود ہے اور ان کی پشت پر ہے۔ عراقی سپاہ کی طرح اُس کا قیمہ نہیں بنایا جا سکا۔ ان کو اور ان کے مخالفین کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے آثار قدیمہ کی تلاش کی ضرورت نہیں، ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے (گزشتہ چند سال کے) واقعات ہی کافی ہیں۔
داعش نے عراق اور شام کے جن علاقوں میں اپنا تسلط جما رکھا ہے، اسے وہاں سے نکالنے کے لئے روس، امریکہ، فرانس اور برطانیہ ایک جیسے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی ہے کہ روس بشارالاسد کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، جبکہ امریکہ اور اُس کے اتحادی انہیں تہہ تیغ کرنے پر کمربستہ ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے بہت سے زخمی اسرائیل کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، اور اس کی شہادت خود مغربی میڈیا نے دی ہے۔
امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی مشکل یہ ہے کہ داعش اور اُس کے ہم خیال ان کی صفوں میں گھس چکے ہیں، ان کی ایجادات سے استفادہ کر رہے ہیں، انہی کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو ان کے خلاف استعمال کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ مسلمان مُلکوں پر جنگ مسلط کرنے والے، اور ان کی سرزمین پر خون کی ہولی کھیلنے والے یہ دیکھ کر سٹپٹا رہے ہیں کہ ان کی اپنی سرزمین میں خون کی فصل اُگ رہی ہے۔ یہ ایک انوکھا تجربہ ہے جو ان پر کیا جا رہا ہے۔ فرعون کا سکون مچھر ہی نے تو برباد کر کے رکھ دیا تھا۔
(یہ کالم روزنامہ ”دنیا‘‘ اور روزنامہ ”پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)