اصل نظریہ پاکستان

’’نظریہ پاکستان کیا ہے؟‘‘ نوجوان کا سوال سیدھا تھا لیکن سوال نے مجھے چکرا کر رکھ دیا، میں نے چند لمحے سوچا اور پھر عرض کیا ’’ پاکستان کے دو نظریئے ہیں، آپ کس کی بات کر رہے ہیں‘‘ نوجوان کی حیرت میں اضافہ ہو گیا، اس نے کہا ’’ سر آپ دونوں بتا دیجیے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ایک نظریہ وہ ہے جسے ہم اپنی درسی کتابوں میں پڑھتے ہیں، جو ہمیں تقریروں میں سنایا اور بتایا جاتا ہے اور دوسرا نظریہ پاکستان ہمارے رسولؐ کا نظریہ تھا‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا، میں نے عرض کیا ’’ ہمیں پڑھایا جاتا ہے، یہ ملک ہندو اور مسلمانوں کی تفریق پر بنایا گیا تھا، مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔

یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتیں، یہ نظریہ ہمارے ملک کی اساس تھا، یہ درست ہے، واقعی ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان دونوں کو اکٹھا رکھنا ممکن نہیں، میں اس نظریے سے اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ نظریہ صرف ملک بنانے کے لیے تھا، آپ اس کے ذریعے ملک چلا نہیں سکتے، آپ کو ملک چلانے کے لیے دوسرے نظریہ پاکستان کی ضرورت ہے اور اس دوسرے نظریئے کے بانی نبی اکرم ؐ ہیں اور یہ نظریہ لکھنو، دہلی یا لاہور میں نہیں بنا تھا، یہ مدینہ میں تیار ہوا تھا اور ہم جب تک اس نظریئے کو نہیں اپنائیں گے۔

ہم اس وقت تک یہ ملک نہیں چلا سکیں گے‘‘ میں خاموش ہو گیا، وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا ’’ اور وہ نظریہ پاکستان کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’وہ نظریہ پاکستان صرف ہمارے ملک کے لیے نہیں تھا، وہ دراصل دنیا کے تمام ملکوں، تمام قوموں، تمام معاشروں، تمام اداروں اور تمام لوگوں کے لیے تھا، آپ فرد ہیں یا قوم آپ جب تک وہ نظریہ نہیں سمجھتے، آپ جب تک اس پر عمل نہیں کرتے، آپ زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘ میں ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔

لان میں سے ایک سرخ چڑیا اڑی، ہوا میں نیم دائرہ بنایا، ہمارے قریب پہنچی، میز پر بیٹھی اور حیرت سے ہم دونوں کو دیکھنے لگی، میں روز ان چڑیوں کے درمیان بیٹھتا ہوں، یہ مجھ سے مانوس ہیں، یہ اکثر اڑ کر میز پر بیٹھ جاتی ہیں، یہ بے تکلفی سے میری پلیٹ میں ٹھونگے بھی مارنے لگتی ہیں، چڑیا چند لمحے اجنبی نوجوان کو غور سے دیکھتی رہی، اس نے پھر میری طرف دیکھا، منہ سے چیں چیں چیں کی آواز نکالی اور اڑ گئی، میں اسے اڑتے دیکھنے لگا۔

نوجوان بے تاب تھا، اس کے وجود میں اضطراب تھا، اس نے کرسی پر کروٹ بدلی اور پوچھا ’’سر وہ کیا نظریہ تھا‘‘ میں نے چڑیا کا تعاقب ترک کیا اور نوجوان کو دیکھنے لگا، میں چند لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا، نوجوان کے کانوں کی لوؤں پر بال تھے، ہم سب کے کانوں کی جھالر پر بال ہوتے ہیں لیکن اس کی لوئیں بالوں سے بھری تھیں، میں نے زندگی میں کبھی کسی کے کانوں پر اتنے بال نہیں دیکھے تھے، میں چند لمحے اس کے کان اور کانوں کی لوؤں کے بال دیکھتا رہا اور پھر عرض کیا ’’یہ جاننے کے لیے آپ کو ہجرت کا واقعہ پڑھنا ہو گا، آپ یاد کیجیے، مسلمان مکہ میں کیسی زندگی گزار رہے تھے۔

کفار اسلام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، مسلمان انھیں تبلیغ کرتے تھے اور وہ ان پر پتھر برساتے تھے، ان پر اوجڑیاں ڈال دی جاتی تھیں، وہ راستوں میں کانٹے بچھا دیتے تھے، مسلمانوں سے رشتے توڑ دیتے تھے، کفار ان کو جادوگر اور بھٹکے ہوئے کہتے تھے، مسلمان مکہ میں کمزور بھی تھے، وہ لوگ ان پر کوڑے برساتے تھے، ان کو تپتی ریت پر لٹا دیتے تھے، ان کی شہ رگ کاٹ دیتے تھے، ان کے سر اتار دیتے تھے، ان کو ایسی گھاٹیوں میں بند کر دیتے تھے جہاں یہ تین تین سال تک پانی اور کھانے کے لیے بلکتے رہتے تھے اور یہ اللہ کے رسول ؐ کو شہید کرنے کے منصوبے بھی بناتے تھے۔

آپ اگر مکہ میں موجود مسلمانوں کی حالت دیکھیں گے تو یہ آپ کو مظلوم بھی لگیں گے، کمزور بھی، بے بس بھی اور نادار بھی۔ اللہ کے رسولؐ کے پاس اس وقت دو آپشن تھے، وہ دعا فرماتے اور اللہ تعالیٰ کفار کے دل پلٹ دیتا یا کوئی خوفناک آندھی آتی، کوئی وباء پھوٹتی یا پھر زمین سے کوئی بلا نکلتی اور مکہ کے سارے کفار مارے جاتے اور مسلمانوں کو چند برسوں میں اقتدار مل جاتا یا پھر رسول اللہ ﷺ جدوجہد کا راستہ چنتے، نبی اکرمؐ نے دوسرا راستہ منتخب کیا، آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو لیا اور مکہ سے ساڑھے چار سو کلو میٹر دور مدینہ میں پناہ لے لی۔

وہ ہجرت اور مدنی زندگی کے تیرہ سال اصل نظریہ پاکستان ہیں، آپ اگر ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہجرت اور مدنی زندگی کو سمجھنا ہو گا‘‘ میں خاموش ہو گیا، چڑیا واپس آ گئی، وہ اب میری پلیٹ میں چونچ مار کر کیک کھا رہی تھی، میں پدرانہ شفقت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا، نوجوان نے ایک بار پھر کرسی پر کروٹ بدلی اور پوچھا ’’سر مدنی زندگی میں کیا تھا‘‘ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، چڑیا مزے سے کیک کھا رہی تھی، میں نے عرض کیا ’’نبی اکرم ؐ نے مدینہ میں اس سماجی نظرئیے کی بنیاد رکھی جس کے بغیر دنیا کا کوئی شخص کامیاب ہو سکتا ہے، ادارہ، کمپنی اور نہ ہی ملک۔ آپؐ نے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی گنجائش پیدا کی۔