سیلاب سے نمٹنے کے لیے قدرت کی طرف واپسی

ڈوبی ہوئی فصلیں، خوراک اور راشن گراتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹر، گھٹنوں گھٹنوں پانی میں سے بوڑھے اورکمزوروں کو نکالتے ہوئے فوجی اور رضاکار، مردوں، عورتوں، بچوں اور مویشیوں سے بھرے ہوئے دریائی پشتوں کے کنارے، اب یہ سب مناظر اب بہت عام ہو چکے ہیں!

یہ مناظر 2010 میں دریائے سندھ میں آنے والے بڑے سیلاب کے بعد پاکستانیوں کی اجتماعی یادداشت پر نقش ہوچکے ہیں جس میں ملک کا پانچواں حصہ ڈوب گیا تھا اور 1 کروڑ 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ اس وقت یہ مناظر دیکھنے والوں کے دل لرزا رہے تھے لیکن 2010 کے بعد بھی پاکستان میں تواتر سے ہر سال آنے والے سیلابوں کے باعث آج اس طرح کے مناظر قوم کی ہمدردی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

لمحہء فکر یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق آئندہ سالوں میں پاکستان میں سیلابوں کے تواتر اور شدت میں اضافہ ہی ہوگا۔

پانی کے مایہ ناز ماہر اور موسمیاتی تبدیلی پر وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس کے سابق رکن ڈاکٹر پرویز امیر کہتے ہیں کہ “یہ اب ایک بالکل نیا کھیل بن چکا ہے، موسم کے رجحانات اب بدلتے جا رہے ہیں۔ بارشیں اب بہت زیادہ اور شدید ہوچکی ہیں جبکہ ان کا دورانیہ مختصر ہوچکا ہے۔” ایسے میں بڑھتا ہوا درجہء حرارت ہمالیائی گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلا کر سیلاب کے خطرات میں اضافہ کر رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 715,000 لوگ سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو تقریباً 1 فیصد سالانہ کا نقصان پہنچتا ہے، جو کہ2.7 ارب امریکی ڈالر کے برابر ہوتا ہے۔ ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق سیلابی اثرات کے باعث 2030 تک پاکستان میں دریائی سیلابوں سے ہر سال 27 لاکھ لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

سیلابوں کو اپنانا

مگر وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ جنگلات کے انسپکٹر جنرل سید محمود ناصر سمجھتے ہیں کہ ضروری نہیں سیلاب اموات اور تباہی کا پیغام ہی لائے۔ “سیلاب کو ایک موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر سال آنے والوں سیلابوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے انہیں اپنانا سیکھ لیں۔”

ان کا کہنا ہے کہ جنگلات اور قدرتی وسائل کی حفاظت اور بحالی سے سیلاب کے خطرات کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے قوانین بنانا اور موجودہ قوانین پر عملدرآمد کروانا، سیلاب کے پیشگی وارننگ سسٹم کو مضبوط کرنا، اور کچے کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو محدود رکھنا۔

سیلاب سے نمٹنے کی پاکستان کی حکمتِ عملی میں ابھی تک اس طرح کی تدابیر موجود نہیں ہیں۔

شروع میں سیلاب کے حوالے سے ناصر کے اس نقطہء نظر کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی اور انہیں بہت سے قانون سازوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ “مجھے کہا گیا کہ میری باتیں ان کی سمجھ سے باہر ہیں، اور یہ کہ میں سیلاب کو دعوت دے رہا ہوں۔”

لیکن اب جبکہ حکومت سیلاب کی روک تھام کے لیے چوتھا قومی منصوبہ تیار کر رہی ہے، تو شاید چیزیں تبدیل ہورہی ہیں۔

ماضی سے سبق

تین سال قبل 2012 میں موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے رامسر انٹرنیشنل کنونشن آن ویٹ لینڈز کے تحت بین الاقوامی ماہرین کے ایک گروپ رامسر ایڈوائزری مشن (RAM) کو پاکستان میں دریائے سندھ کا دورہ کرنے کی دعوت دی، ماہرین نے کم قیمت طریقوں سے سیلابی پانی کو سمجھداری سے استعمال کرنے اور جھیلوں کی بحالی کے لیے شناخت پر ایک مؤثر حکمت عملی پر مبنی رپورٹ پیش کی۔

اب زراعت اور رہائش کی غرض سے دریائے سندھ کے کچے کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ ہوچکا ہے، لیکن بعض ماہرین کے خیال میں پانی ذخیرہ ہونے والی 50 فیصد جگہوں پر اب بھی بہت سی ایسی زمین موجود ہے جہاں دریائے سندھ کا سیلابی پانی نکالا جا سکتا ہے۔

اس کام کے لیے رامسر ماہرین نے لال سونہارا نیشنل پارک اور صوبہ سندھ میں گدو اور سکھر بیراج کے پاس کے علاقوں کی نشاندہی کی ہے۔

معروف ہائیڈرولوجسٹ ضیغم حبیب اس بات سےاتفاق کرتی ہیں کہ جب تک دریاؤں کے بالائی علاقوں اور دریاؤں کے ساتھ ساتھ موجود جنگلات کو محفوظ نہیں کیا جائے گا، تب تک سیلاب کی تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔

لیکن ضیغم حبیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زمین کے استعمال کا انتظام ایک گھمبیر سیاسی مسئلہ ہے۔ “بھلا کون ایسی پالیسیاں بنانا چاہے گا جس سے صوبے یا قوم کو تو فائدہ ہو مگر ان لوگوں کو ذاتی طور پر فائدہ نہ دے یا مالی نقصان کا باعث بنے؟”

وقت کے ساتھ ساتھ بااثر سیاست دانوں اور زمین داروں نے بے زمین لوگوں، خصوصاً اپنے ووٹروں کو (دریائے سندھ سے متصل) کچے کے علاقوں میں بسنے اور فارم بنانے کی اجازت دے دی ۔

ضیغم حبیب نے سندھ میں دریائے سندھ کے کچے کے علاقوں کی مثال دی جہاں سیلابی علاقوں کے اندر پکا انفراسٹرکچر، سڑکیں اور بجلی کے کھمبے تک نصب کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “سیلاب کے موسم میں یہ سب افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، چونکہ ان غریب افراد کو رقوم ملتی ہیں، اس لیے انہیں ہر سال جگہ بدلنا برا نہیں لگتا۔ پانی اترنے کے بعد جب وہ دوبارہ واپس آتے ہیں تو پہلے سے زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں۔”

رامسر ماہرین نے پاکستان کو چین کے یانگسی دریا کے علاقوں کے مینجمنٹ پلان کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا جو 1998 میں بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کے بعد بنایا گیا تھا۔ اس سیلاب کے نتیجے میں 4,000 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق 25 ارب امریکی ڈالر کا اقتصادی نقصان ہوا تھا۔ ناصر کا کہنا ہے کہ “چینیوں نے اس سے ایک مہنگا سبق سیکھا کہ انجینیئرنگ کی مشکل ترکیبیں اکثرسیلابی پانی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور اکثر قیمتی پشتے غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔”

چین سے سیکھیں!

دنیا کا تیسرا بڑا دریا یانگسی چین کے 19 صوبوں میں 6,300 سے زائد کلومیٹر پر بہتا ہے۔ یوں تو یہ دریا ہمیشہ خوفناک سیلابوں کا شکار رہا ہے لیکن 1990 کے بعد سے اس میں سیلاب تواتر سے آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں نقصانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

وسیع پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، اوپری کناروں پر دریائی کٹاؤ، اور وسطی اور زیریں کناروں پر جھیلوں اور آب گاہوں کا سکڑنا حالات میں مزید خرابی کا سبب بن رہا تھا۔ چینی حکومت نے زرعی زمینوں کی حفاظت کے لیے بند بنائے اور جب وہ ٹوٹے تو جان و مال کا زبردست نقصان ہوا۔

لیکن 1998 کا سیلاب چین کے لیے ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جہاں سے وہ سیلاب سے بچاﺅ کے قدرتی حل کی جانب متوجہ ہوا۔ حکام نے انجینیئرنگ کی افادیت پر سوالات اٹھائے اور کچے اور قدرتی ماحول کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوا۔

سیلابوں کے بعد چینی حکومت نے اپنی 32 کریکٹر پالیسی متعارف کروائی جس کا مقصد فطرت کے خلاف جنگ کے ذریعے سیلاب کے خطرات کو کم کرنے کے بجائے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔

انہوں نے پانی کے بہاؤ والے علاقوں میں جنگلات اگانے، جھیلوں کو بحال کرنے اور کچے کے علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دریائی پانی کے مینیجمینٹ کی اتھارٹی صرف ایک ہی ہونی چاہیے جو کہ ماحول، ایکو سسٹم، اور معیشت کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی اپنا سکے۔

آج یانگسی دریا کے علاقے میں 19 میں سے 12 صوبوں میں آب گاہوں کے تحفظ کے قواعد و ضوابط موجود ہیں اور 140 سے زائد نیشنل ویٹ لینڈ پارکس قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کچے کے علاقوں سے 21 لاکھ افراد کو منتقل کر دیا ہے، درختوں کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے اور مزید کٹاؤ کو روکنے کے لیے نشیبی وادیوں میں کھیتی باڑی کی ممانعت کردی ہے۔

پہلے چینی حکومت بند مضبوط کرنے اور بیراجوں کو مزید گہرا کرنے جیسے مختصر مدتی حل تلاش کرنے میں مصروف تھی، جبکہ سیلاب سے بچاؤ کے زیادہ پائیدار اور طویل مدتی اقدامات پر اس کی توجہ کم تھی۔ ناصر کے مطابق “جب ایک بار انہوں نے حقیقت کا ادراک کیا تو پھر پلٹ کر نہیں دیکھا”۔ ناصر نے مزید کہا کہ ارکانِ پارلیمنٹ کو یانگسی دریا کا دورہ کرنا چاہیے جہاں وہ اس کے اثرات خود دیکھیں گے۔

سیلاب سے بچاﺅ کا مربوط انتظام

پاکستان کی حکومت نے سیلاب کے خطرات کو کم کرنے کے لیے خود اپنی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ نیشنل انجینیئرنگ سروسز پاکستان نے نیدرلینڈز کے ڈیلٹاریس انسٹیٹیوٹ کی مدد اور مختلف اسٹیک ہولڈرز سے تقریباً دو سال کی مشاورت کے بعد ملک کا “سیلاب سے تحفظ کا چوتھا قومی منصوبہ (2025-2015)” تیار کیا ہے جو اپنی آخری شکل میں ہے۔

یہ دس سالہ حکمت عملی اب وزارتِ پانی و بجلی کے پاس موجود ہے، اور اس انتظار میں ہے کہ کب حکام اس میں زندگی کی روح پھونکیں۔

یہ منصوبہ سیلاب سے نمٹنے میں پاکستان کی ایک اہم کامیابی ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلی بار قومی حکمت عملی میں مربوط فلڈ مینیجمنٹ اور کچے کے علاقوں کی نقشہ بندی، اونچائی سے آتی پانی کی نہروں اور جنگلات کی بحالی جیسے ‘نرم’ اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک ریور ایکٹ (فی الحال وزارت قانون میں اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے) کچے کی زمینوں پر تجاوزات کی روک تھام کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

تیار کیے گئے منصوبے میں کالا باغ، دیامر بھاشا، اکھروئی، منڈا، چنیوٹ اور کرم تنگی ڈیم سمیت پہلے سے منتخب شدہ علاقوں میں بڑے ذخیروں کی تعمیر اور سیلاب کی ارلی وارننگ سسٹم کی اپ گریڈنگ کا خاکہ بھی رکھا گیا ہے۔

اگر ماضی کے سیلابوں کے قومی منصوبوں کو دیکھا جائے تو تیسرے قومی منصوبے (2008-1998) کے مقابلے میں اب کی بار حکمتِ عملی پشتے اور بیراج بنانے کے بجائے ادارہ جاتی اصلاحات، ارلی وارننگ سسٹم کی ترویج اور کچے کے علاقوں کی نقشہ کشی کی جانب تبدیل ہوئی ہے۔

منصوبے کا حالیہ ڈرافٹ اس سے بھی ایک قدم آگے جاتا ہے اور سیلاب سے نمٹنے کے لیے ایک زیادہ جامع نقطہ نظر رکھتا ہے۔ اس بات سے ضیغم حبیب کی اداسی کسی حد تک کم ہوسکتی ہے کہ سیلاب کی پرانی منصوبہ بندیوں میں “بکھری ہوئی معلومات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے قدیم و روایتی حل تھے جبکہ مربوط حکمتِ عملی کی کمی تھی۔”

سیلاب سے بچاﺅ کی نئی حکمت عملی پر کون عمل درآمد کرے گا؟

وزارت پانی و بجلی کے تحت چلنے والا پاکستان کا فیڈرل فلڈ کمیشن ذمہ دار ہے کہ فلڈ مینیجمینٹ کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کرے۔

اس میں مختلف سرکاری اداروں، جن میں واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) سمیت مختلف صوبائی آب پاشی محکمے، فوج، اور ماحولیات کے تحفظ کے صوبائی ادارے شامل ہیں، اور انہیں دریائے سندھ کے انتظام کے لیے آپس میں ہم آہنگی رکھنی ہے۔ مگر عملی طور پر مختلف سرکاری ادارے اپنے اپنے طریقہء کار کے مطابق ہی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ناقص حکمرانی اور کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ایک عدالتی ٹربیونل کے مطابق 2010 کے سیلاب سے ہونے والے نقصان کا سبب یہ تھا کہ فیڈرل فلڈ کمیشن سیلاب سے بچاﺅ کی ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہا تھا۔

ناصر کہتے ہیں کہ جب تک سرکاری محکموں کے مابین تعاون کا مؤثر طریقہء کار نہیں ہوگا، کچھ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ان کا خیال ہے کہ ایک واحد اتھارٹی کو ہی دریائی مقامات میں تمام نشیبوں، جھیلوں، اور جنگلوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔

“ہمارے پاس ایک محکمہ جنگلی حیات بھی ہے جو صرف پرندوں کا خیال رکھتا ہے۔ محکمہء جنگلات صرف ریاست کے جنگلات میں درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ محکمہ آبپاشی صرف انجینیئرنگ کے کاموں کو دیکھتا ہے۔ واٹر اینڈ پاور اتھارٹی کے خیال میں صرف ڈیم ضروری ہیں۔ ڈزاسٹر مینیجمینٹ اتھارٹی قدرتی آفات میں متاثرین میں آٹے اور چاول کے تھیلے بانٹنے کو ہی اپنی ذمے داری سمجھتی ہے۔

کیا سیلاب سے بچاؤ کی نئی حکمت عملی مسائل سے نمٹ سکے گی؟ اس سوال کا جواب تب ہی مل سکتا ہے جب اس دستاویز کو تیاری کے بعد عوام میں مشتہر کر دیا جائے، تب ہی حقیقی بحث شروع ہو سکتی ہے۔

 


ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@