ہم کیوں مسلمان ہوئے؟

مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دوروں کے دوران میری نوجوانوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، میں ان کی خواہشات اور خوابوں کے بارے میں بھی پوچھتا ہوں۔ زیادہ تر کا مطمعٔ نظر معقول ملازمت کا حصول ہے۔ چند ایک دولت کمانے کے لیے ملک سے باہر جاکر قسمت آزمانا چاہتے ہیں،کچھ عزّت اور شہرت کے متمنّی ہوتے ہیں۔ دنیا میں کچھ ایسے ممتازافراد بھی ہیں جنھیں قدرت دولت اور شہرت سے نوار دیتی ہے۔ اور پھر ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہیں جنھیں تینوں نعمتیں یعنی دولت، شہرت اور عزّت بیک وقت نصیب ہو جاتی ہیں۔ کسی عام آدمی سے پوچھیں تو وہ کہے گا جسے یہ تینوں نعمتیں نصیب ہوجائیں اسے اور کیا چاہیے؟ وہ تو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔

مگر کچھ لوگ ان تینوں نعمتوں کے حاصل ہوجانے کے باوجود اپنے آپ کو خوش قسمت نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کوئی خلاء ہے کوئی کمی ہے جسکی وجہ سے انھیں اطمینانِ قلب نصیب نہیں ہے، اس خلاء کو پر کرنے کے لیے وہ روشنی کی تلاش میںاِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ صادق جذبوں کے ساتھ جب بھی کوئی چیز تلاش کی جائے تو ربّ ِکائنات رہنمائی اور مدد فرماتا ہے اور نیک نیّتی کے ساتھ سچّائی تلاش کرنے والوں کے دل نورِ حق سے منوّر کردیتا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے “Our jurney to Islam”یا ” ہم کیوں مسلمان ہوئے”کے نام سے ایک خوبصورت کتاب مرتّب کی ہے ۔اس کتاب میں سو کے قریب نومسلم خواتین و حضرات کے تذکرے ہیں ان کی غالب اکثریت پروفیسر ز، ڈاکٹرز، انجینئرز اور ممتاز حیثیت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب رمضان المبارک کے لیے بہترین تحفہ ہے۔
ان نامور نومسلم خواتین و حضرات کے سوانحِ حیات روح پرور بھی ہیں اور ایمان افروز بھی۔ یہ ان خوش نصیب صاحبان فِکر ونظر کی سچی کہانیاں ہیں جنھیں تلاش کے بعد ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور وہ اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر مشرّف بہ اسلام ہوئے۔ ان کی قومیتوں کی طرح اسلام کی طرف ان کے مائل ہونے کی وجوہ مختلف بھی ہیں اور حیران کن بھی۔ آئیں کچھ ایسے غیر معمولی افراد سے آپ کی ملاقات کرائیں ۔

برطانیہ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو کیٹ سٹیونز (Cat Stevens) کے نام سے واقف نہ ہو کیونکہ وہ برطانیہ کے معروف موسیقار اور مقبول ترین پوَپ سنگر رہے ہیں ۔ کل کا مقبول ترین پوَپ سنگر کیٹ سٹیونز آج یوسف اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس نے اپنی زندگی اسلام کاپیغام پھیلانے میں وقف کر رکھی ہے۔ اس کی زندگی میں یہ انقلاب کیسے برپا ہوا۔۔ اس کی اپنی زبانی سُنیئے:۔

“میں عزّت دولت اورشہرت کے ہوتے ہوئے بھی ایک خلاء محسوس کرتا تھا، میری زندگی میں روحانی سُکون نہیں تھا۔ اور میں روشنی کی تلاش میں تھا۔ میرا بھائی یروشلم گیا وہاں اس نے جن مقدس مقامات کی سیر کی اُن میں ایک مسجدِ اقصیٰ بھی تھی یہاں کی فضاء مسیحی گرجوں اور یہودیوں کے معبدوں سے اسقدر مختلف تھی کہ اس نے خود سے سوال کیا کہ اسلام عیسایت کی طرح پراسرار کیوں نہیں ہے؟ واپسی پر میرے بھائی نے مجھے قرآن کا ایک نسخہ لا کر دیا”۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو قرآن کی کس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا تو انھوں نے کہا کہ “یہ اس پیغام کی دائمی نوعیّت تھی۔
میرے لیے زندگی کا مقصد ایک سربستہ راز تھا۔ ہمیشہ مجھے یہ گمان رہا کہ اس زندگی اور اس کائنات کا کوئی زبردست تخلیق کا ر ضرور ہے۔ مگر وہ اَن دیکھا تخلیق کار کون ہے؟۔ اس کا پتہ نہ چلتا تھا میں اس سے پہلے کئی روحانی راستوں کی خاک چھان چکا تھا مگر تسکین کی پیاس کہیں نہیں بجھی۔ میں ایک ایسی ناؤ کی مانند تھا جو پتوار اور کھیون ہار کے بغیر چلی جا رہی تھی اور جسکی کوئی منزل نہ تھی۔ لیکن جب میں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے سکون اور قرار مل گیا۔ مجھے وہ روشنی مل گئی جس کی تلاش میں میں مارا مارا پھر رہا تھا”۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے اسلام کی دولت ورثے میں پائی مگرناقدرے بھی ہیں کہ اس دولت کی حفاظت کے لیے نہ جدوجہد کی نہ قربانی دینی پڑی۔ کئی نومسلم خواتین و حضرات کی داستانیںپڑھکر دل دہل جاتاہے کہ انھوں نے اس راستے میں کتنی صعوبتیں جھیلیں اور ایمان کی منزل تک پہنچنے کے لیے انھیں آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کرنے پڑے۔ مِنَ الظّلماتِ الَی النّوُرکے اس سفر کے جن خوش نصیب مسافروں نے اپنی داستان رقم کی ہے ان میںنیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی مارگریٹ مارکس کی داستان بھی ہے۔

جو ایمان کی منزل تک پہنچنے کے لیے نیویارک کی چکاچوند روشنیوں کو چھوڑ کر پاکستان پہنچی دینِ حق قبول کیا اور مریم جمیلہ بن کر زندگی کے چالیس سال ایک صاحبِ اولاد شخص محمد یوسف خان کی دوسری بیوی کی حیثیت سے سنت نگر لاہورکے پانچ مرلہ مکان میں اطمینان خوشی اور مسرّت سے گزار ے اور اس دوران کئی معرکۃ الآراء کتابیں لکھیّں۔
اس کتاب میں کیرالہ (بھارت) کی ڈاکٹر کاملہ ثریا کی کہانی بھی ہے جو خود ایک معروف شاعرہ اور ناول نگار ہیں جنھوں نے ھندُوازم چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔ اسمیں امریکا، فرانس،جرمنی، برطانیہ،جاپان، آسٹریلیا، بھارت، کینڈا، ہالینڈ،ملائیشیا، پولینڈ، آسٹریا اور دیگر کئی ممالک کے ان صاحبانِ علم و دانش کی سچّی کہانیاں ہیں جنھوں نے سچائی کی تلاش میں اپنے ہنستے بستے گھرانے چھوڑ دیے اور خود ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا۔ ان سَبکی سوچ میں ایک چیز مشترک تھی کہ’ صرف دنیاوی ترقّی سے آپکوحقیقی خوشی اور مسرّت حاصل نہیں ہوسکتی’۔

کتاب میں انگلستان کے ایک ممتاز جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل سرلارڈ برنٹنن کی داستان بھی ہے جو بے پناہ عزّت وافتخار اور نیک نامی کے حامل تھے۔ وہ قبولِ اسلام کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ “آج میرا دل مسرّت و انبساط کے ایسے جذبات سے بھرپور ہے جنھیں میں بیان کرنے پر اپنے آپ کو قادر نہیں پاتا۔ میں والدین کے کہنے پر تعلیم مکمل کرکے چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ ہوگیا۔

مجھے عیسائیت کے جس عقیدے نے سخت پریشان کرنا شروع کیا وہ انسان کے ازلی گناہگار ہونے کا عقیدہ تھا پھر اس پر یہ تصوّر کہ معدودے چند افراد کے سوا باقی ساری مخلوق دائمی عذاب سے دوچار ہوگی۔ ان نظریات سے مجھے اتنی گھن آتی کہ میں تقریباً بے دین ہوگیا۔ مذہب کا سارا ڈھانچہ میری نظروں میں مشکوک ہوگیا۔ پھر میں نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ شروع کردیا۔ اسلام کے مطالعے سے شکوک وشبہات کی گرہیں کھلتی چلی گئیں اور میرے اندر سچے خدا کی عبادت اور خدمت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ مطالعے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ انسانیّت پر حضرت محمدؐ کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کے خلاف بغض کا اظہار کرنا ظلمِ عظیم ہے”۔

ہندوستان کی مشہور نو مسلم خاتون راجکماری جاوید بانو بیگم بنگال کے ایک ہندو راجہ کی صاحبزادی تھیں، اعلیٰ تعلیم کی حامل تھیں انھوں نے کامل تحقیق کے بعد اسلام قبول کیا اور اس سلسلے میں بہت سی تکلیفیں برداشت کیں۔ وہ حق کی تلاش میں ھندومَت ، عیسائیت اور بُدھ مَت کی طرف راغب ہوتی رہیں مگر انھیں کہیں صداقت نظر نہ آئی۔ اسلام کی طرف راغب ہونے کے بارے میں کہتیں ہیں’’آخِرکار میں نے صداقت کو پالیا میں بہت ہی خوش ہوں اور میری روح مطمئن ہے۔ صرف اسلام ہی انصاف، انسانیّت اور آزادی کا مذہب ہے جسکی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ اسلام ہی روز مرّہ زندگی میں ہمارا سچا رہنما ہوسکتا ہے۔ میں یقینِ واثق سے کہتی ہوں کہ کوئی دوسرا مذہب اصلاح اور خوشی کا موجب نہیں ہوسکتا سوائے اسلام کے جو خدا کی سچی محبت اور انسانیت کی سچی اُلفت اور حقانیت پر مبنی ہے‘‘
امریکا کی محترمہ آمنہ اور سسٹر امینہ کی جدوّجہد، قربانی اور استقامت سے بھرپور رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں ہیں۔ بہن کوشراب نہ پینے پربھائی اورباپ تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔

اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی، نوکری چھوٹ گئی۔ فیملی نے قطع تعلق کر لیا۔ بیکسی اور بے چارگی میں حق کی تلاش جاری رہی اور بالآخر خدائے رحیم و کریم نے حق و صداقت کی منزلِ مراد تک پہنچادیا ۔ایک اور کہانی پڑھ کہ معلوم ہوا کہ ایک معذور لڑکی کو ایمان کی دولت نے اتنی ہمّت عطا کی کہ وہ منشیات کے بے تاج بادشاہ برنارڈوکے محل تک پہنچ گئی اور بلاخوف اسے اس برائی سے باز آنے کی تلقین کی، برنارڈو نے دھتکار دیا مگر معذور لڑکی کے ارادے اور استقامت میں فرق نہ آیا، اس نے کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر اس نے ایک خطرناک مجرم کو گناہ کی زندگی سے توبہ کرنے پر قائل کرلیاجس پر عظیم باکسر محمدعلی نے اس کے گھر جاکر اور امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس بلا کر اس نو مسلم معذور لڑکی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ امریکا اور یورپ کے نومُسلم سمجھتے ہیں کہ یہاں کے باشندوں کو ترقی اور خوشحالی تو حاصل ہے مگروہ زندگی کے اصل مقصد سے ناآشنا ہیں۔

انھیں یہ علم نہیں ہے کہ” ہم کیوں پیدا کیے گئے ہیں؟ کیا اس زندگی کا کوئی مقصدہے؟ کیا زندگی اور موت کسی کے دائرۂ اختیار میں ہے؟ کیا اس دنیا اور کائنات کا کوئی حاکمِ اعلیٰ ہے یا یہ کسی حادثے کے نتیجے میں ہی پیدا ہو گئی ہے؟”پچانوے فیصد غیرمسلموں کو روشنی اسوقت نصیب ہوئی جب انِکی براہ راست قرآن تک رسائی ہوئی اور انھوں نے اﷲ کے اپنے کلام کا مطالعہ کیااَیساکیوں نہ ہوتاخودخالقِ کائنات نے قرآن کو انسانوں کے لیے ہدایت اور شفاء قرار دیا ہے۔ جو بھی خلوصِ دل سے کتابِ حق کا مطالعہ کریگا اسے یقیناًہدایت بھی ملے گی اور شفأبھی۔

اسلام کے نور سے فیضیاب ہونے والے زیادہ ترخواتین وحضرات کا کہنا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے اسلیے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں:
٭قرآن کی زبان اور اس کے پر شکوہ انداز سے ایک پڑھا لکھا شخص آسانی سے اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ کسی انسان کی زبان نہیں ہے ۔ یہ کائنات کے طاقتور ترین تخلیق کار اور حاکمِ اعلیٰ کاطرزِتخاطب ہے٭قرآنی تعلیمات کے مطابق مسلمان گزشتہ ساری کتابوں کو (اگرچہ وہ تحریف کی نذر ہوچکی ہیں)مقدّس اور الہامی مانتے ہیں،قرآن ہر قسم کی ترمیم و تبدیلی سے محفوظ ہے اور پہلی کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتا ہے٭اسلام تمام مذاہب کے مقابلے میں کہیں زیادہ عقلی، عملی، فطری اور سادہ مذہب ہے٭اسلام میں خدا کا تصور بڑا ہی باوقار اور پُرشکوہ ہے٭اسلامی عبادات انسان کا اﷲسے براہِ راست تعلق جوڑتی ہیں٭اسلام میں تما م انسانوں کے برابر ہونے equality))کا تصور بڑا مسحور کن ہے۔٭ کچھ اور لوگوں کی داستانیں قارئین کے ساتھ کسی اور نشست میں شیئر کرونگا۔
یہ کالم پہلے ایکسپریس اخبار میں